سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

بدعتى جيسا قول كہنا بھى كہلائيگا

9788

تاریخ اشاعت : 08-01-2009

مشاہدات : 5250

سوال

اگر كوئى عالم دين بدعت كى بات كرے يا كسى بدعتى كى موافقت كرتا ہو تو كيا وہ بھى ان ميں شامل ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم نے يہ سوال شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كے سامنے پيش كيا تو ان كا جواب تھا:

اس سوال كى دو شقيں ہيں:

پہلى شق:

اگر كوئى عالم دين بدت كى بات كرے يا پھر كسى ايك مسئلہ ميں بدعتيوں كے طريقہ پر چلے تو كيا وہ ان ميں شامل ہو گا ؟

جواب:

نہيں وہ ان ميں شامل نہيں ہو گا، اور نہ ہى ان كى جانب منسوب كيا جائيگا، اس ليے كہ وہ تو صرف كسى ايك مسئلہ ميں موافق ہوا ہے، لہذا اسے مطلقا ان كى طرف منسوب كرنا صحيح نہيں.

اس كى مثال اسطرح ہے:

جو شخص امام احمد كے مسلك پر ہو ليكن اس نے كسى ايك مسئلہ ميں امام مالك كا مسلك اختيار كيا تو كيا ہم اسے مالكى كہينگے ؟

نہيں اسے مالكى نہيں كہا جائيگا.

تو اسى طرح اگر كوئى فقيہ ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے مسلك پر ہو اور وہ كسى معين مسئلہ ميں شافعى مسلك پر عمل كرے تو كيا ہم اسے شافعى كہينگے ؟

نہيں اسے شافعى نہيں كہا جائيگا.

چنانچہ اگر ہم كسى معتبر اور نصيحت ميں معروف عالم دين كو اہل بدعت كا كوئى مسئلہ ليتے ہوئے ديكھيں تو يہ صحيح نہيں كہ وہ بھى ان بدعتيوں ميں شامل ہو گيا ہے اور ان كے طريقہ پر ہے، بلكہ ہم يہ كہينگے:

جب ہم ان سے كتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور اللہ كے بندوں كى خير خواہى ديكھتے ہيں، اور جب وہ اس مسئلہ ميں غلطى كر بيٹھے تو ان كى يہ غلطى اجتھاد كى بنا پر ہے كيونكہ اس امت كا اجتھاد كرنے والا اگر صحيح اجتھاد كرے تو اسے ڈبل اجر ملتا ہے اور اگر غلطى كر بيٹھے تو اسے ايك اجر حاصل ہوتا ہے.

اور جو كوئى شخص كسى ايك غلط كلمہ كى بنا پر سارا حق ہى رد كر دے تو وہ گمراہ ہے، خاص كر جب يہ غلطى جسے وہ غلط خيال كرتا ہے غلط نہ ہو، كيونكہ بعض لوگ ايسے ہوتے ہيں جب ان كى كوئى مخالفت كرتا ہے تو وہ كہتے ہيں يہ غلط ہے، اسے غلط بلكہ گمراہ يا بعض اوقات تو اسے كافر قرار ديتے ہيں اللہ اس سے محفوظ ركھے، ايسا كرنا بہت ہى برا اور غلط ہے.

اور جو كسى دوسرے كو كسى بھى سبب يا معصيت كى بنا پر كافر قرار دے تو اس كا يہ مسلك تو خوارج سے بھى زيادہ شديد ہو گا، كيونكہ خوارج تو مرتكب كبيرہ كو كافر قرار ديتے ہيں، نہ كہ كسى بھى معصيت كى بنا پر.

اس ليے اس وقت اگر كوئى شخص مسلمانوں كو كسى بھى معصيت و نافرمانى كى بنا پر كافر كہتا ہے تو وہ گمراہ اور كتاب و سنت كا مخالفت اور خوارج كے مذہب سے بڑھ گيا جن كے خلاف على رضى اللہ تعالى عنہ نے جنگ كى تھى.

اور مسلمانوں ميں انہيں كافر قرار دينے ميں اختلاف پايا جاتا ہے كچھ تو انہيں كافر كہتے ہيں اور كچھ انہيں فاسق قرار ديتے ہيں، اور انہيں باغى اور ظالم مانتے ہيں، كيا اللہ تعالى كا يہ فرمان نہيں:

اگر تم كبيرہ گناہوں سے اجتناب كرو جن سے تمہيں منع كيا گيا ہے تو ہم تمہارے گناہ معاف كر دينگے اور تمہيں عزت و بزرگى كى جگہ داخل كرينگے .

اس سے معلوم ہوا كہ كبيرہ گناہوں سے اجتناب كرنے كى بنا پر صغيرہ گناہ معاف كر ديے جاتے ہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اگر وہ صغيرہ گناہوں پر اصرار نہ كرتا ہو، ليكن اگر وہ ان پر اصرار كرے تو علماء كا كہنا ہے كہ: صغيرہ گناہ پر اصرار اسے كبيرہ بنا ديتا ہے.

بلاشك و شبہ يہ قول گمراہ ہے پھر اس قائل كو يہ معلوم ہونا چاہيے كہ ـ معصيت كى بنا پر مسلمانوں كو كافر قرار دينے والے كو ـ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى اپنے بھائى كے كفر كا دعوى كيا ـ يعنى وہ ايسا ہے نہيں ـ تو وہ كفر اس پر ہى پلٹ آئيگا "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو بات كہى ہے اگر وہ دنيا ميں كافر نہيں ہو گا اللہ كے ہاں كافر ہو گا.

واللہ اعلم .

ماخذ: ماہانہ ملاقات فضيلۃ الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ ( 15 )