الحمد للہ.
اول:
ہم كئى ايك فتاوى جات اور جوابات ميں مرد و عورت كے اختلاط كى حرمت اور اس كى تباہى بيان كر چكے ہيں، وہ اختلاط جو شرع ميں پردہ اور آپس ميں ايك دوسرے كے معاملات و ادب كے كسى بھى ضابطہ كے ساتھ منضبط نہيں، اور ہم مخلوط ملازمت اور تعليم كى حرمت بيان كر چكے ہيں، اور ہميں يہ افسوس ہے كہ بعض مفتيان كرام اس معاملہ ميں تساہل سے كام ليتے ہيں، حالانكہ وہ بھى ملازمت اور تعليم والى مخلوط جگہ ميں جو خرابياں ہيں انہيں جانتے ہيں، گويا كہ يہ كسى اور جہاں ميں بستے ہيں، جہاں انہيں حرام اختلاط كا اثر نظر نہيں آتا، اور نہ ہى دل ميں خرابياں پيدا ہوتى ہيں، اور نہ عقل جاتى ہے اور دين ضائع ہوتا ہے.
اس كى تفصيل سوال نمبر ( 1200 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.
اختلاط كے ان برے اثرات سے كوئى نہيں بچ سكا، عفت و عصمت كى مالك عورت اس بدبودار اختلاط كے جوہڑ ميں غوطہ زن ہے، اور اس پر اس كى گندگى اور قبيح منظر اور ردى قسم كى بو كثرت سے آنے لگى ہے، اور اللہ تعالى كى اطاعت گزار ايك مستقيم اور سيدھى راہ پر چلنے والے نوجوان كے متعلق بھى ايسا ہى كہہ سكتے ہو، وہ كيسا تھا اور كيسا بن گيا.
اللہ سبحانہ و تعالى نے مردوں ميں عورت كى طرف ميلان اور جھكاؤ ركھا ہے، اور اسى طرح عورتوں ميں بھى مردوں كى طرف ميلان اور جھكاؤ پيدا كيا ہے، ليكن اللہ تعالى نے اجنبى مرد و عورت كے درميان حرام تعلقات مباح نہيں كيے، اور اسى لئے شريعت ميں بہت سارے احكام ايسے ہيں جو اس فحاشى تك جانے كے سب راہ بند كرتے ہيں، اسى لئے كسى اجنبى عورت كو ديكھنا حرام ہے، اور اس سے مصافحہ كرنا اور اس كے ساتھ خلوت اور عليحدگى كرنا بھى حرام ہے، اور اكيلى عورت سفر بھى نہيں كر سكتى، اس كے علاوہ كئى ايك احكام ہيں جو شيطان كا راہ بند كرتے ہيں كہ وہ مسلمان كو زنا اور فحاشى ميں ڈالے.
دوم:
ہمارى فاضلہ بہن آپ كا كہنا ہے: ـ اور ان دونوں كے درميان حرام تعلقات قائم ہو گئے ـ ہم اس جملے كا معنى نہيں جانتے احتمال ہے كہ اس كے دو معنى ہوں:
پہلا معنى: زنا ـ اللہ اس سے محفوظ ركھے.
دوسرا معنى: دوستى اور خلوت اور زنا سے كم درجے كے افعال.
اگر پہلا احتمال ہو اور يہ واقع بھى ہو سكتا ہے: تو وہ دونوں عظيم اور كبيرہ گناہ كے مرتكب ہوئے ہيں، اللہ سبحانہ و تعالى نے غير شادى شدہ زانى مرد اور عورت كو سو كوڑے مارنے كا حكم ديا ہے، اور شادى شدہ كو موت تك رجم كرنے كا حكم ديا ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بتايا ہے كہ زانى كا ايمان سلب ہو جاتا ہے، اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے خواب ميں زانى مرد اور عورت كو جہنم كى آگ ميں ايك تنور كے اندر جلتے ہوئے ديكھا.
زاني كے زنا كى بنا پر جو امور مرتب ہوتے ہيں ان ميں يہ بھى ہے كہ: زانى مرد كے ليے اس زانى عورت سے شادى كرنا حرام ہے، اور زانى عورت كے ليے بھى اس مرد سے شادى كرنا حرام ہے؛ كيونكہ زانى مرد اور زانيہ عورت كا نكاح حرام ہے، ليكن اگر وہ دونوں سچى اور خالص توبہ كر ليں اور اپنى اصلاح كر ليں اور عورت ايك حيض عدت گزار لے تو ان دونوں كا نكاح جائز ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ان دونوں كو اپنے فضل و كرم سے معاف فرمائے.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 14381 ) اور ( 85335 ) اور ( 96460 ) اور ( 87894 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور اگر دوسرا احتمال ہو اور يہ بھى ہو سكتا ہے ـ جيسا كہ اس طرح كے حرام تعلقات كى بنا پر ہوتا ہے، خاص كر وہ اس سے شادى بھىكرنا چاہتا ہے ـ تو كوئى ايسا مانع نہيں جو اس سے نكاح كرنے كا باطل كرتا ہو، ليكن اس اعتبار سے اسے نكاح سے روكا جا سكتا ہے كہ اس عورت كا دين اورخلق قابل قبول نہيں، اور وہ بيوى بننے كے قابل نہيں جو اس كے گھر كى حفاظت كرنے والى ہو، اور اس كى اولاد كى تربيت كرے، ليكن ہم آپ كے بيٹے كے حال ميں يہ نہيں كہہ سكتے، اور اگر وہ لڑكى كوتاہى كى شكار تھى تو وہ بھى اس لڑكى جيسا ہى كوتاہى كا شكار ہے اور ہر وہ عيب جو ہم لڑكى ميں تسليم كرينگے وہى اس لڑكے ميں بھى موجود ہو گا.
اور جب اس آدمى كو دين حكم ديتا ہے كہ وہ ايسى لڑكى تلاش كرے جو متقى اور پرہيزگار اور پاكباز ہو، تو دين اس عورت كو بھى يہى حكم ديتا ہے.
فرمان بارى تعالى ہے:
خبيث عورتيں خبيث مردوں كے لائق ہيں، اور خبيث مرد خبيث عورتوں كے لائق ہيں، اور پاك عورتيں پاك مردوں كے لائق ہيں، اور پاك مرد پاك عورتوں كے لائق ہيں النور ( 26 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
تم ميں سے جو مرد اور عورت بے نكاح ہوں ان كا نكاح كر دو اور اپنے نيك بخت غلام اور لونڈيوں كا بھى النور ( 32 ).
عزيز سائلہ ہم منصف اور واقعى بنيں!! اور آپ كے بيٹے كا جو پہلے حال تھا اس كو ديكھتے ہوئے مقارنہ نہ كريں، بلكہ آپ اس كى اس وقت حالت ديكھيں وہ كيسا ہے.
اور جب آپ ديكھيں كہ وہ دونوں ايك دوسرے كو چاہتے ہيں اور ان دونوں كى شادى كرنےكى رغبت بھى شديد ہے تو ان دونوں كى اصلاح كا سب سے قريب ترين راہ اور ان كے تعلقات كے شر و برائى سے بچاؤ كا راستہ يہى ہے كہ وہ شادى كر ليں حديث ميں آتا ہے.
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" دو محبت كرنے والوں كے ليے نكاح كى مثل ہم كچھ نہيں ديكھتے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1847 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ہو سكتا ہے يہ چيز ان كى توبہ اور اصلاح اور دين پر چلنے كے ليے مناسب فرصت بن جائے جو شادى سے قبل صحيح ہونے ميں معاون ہو.
سوم:
طلاق كى نيت سے شادى كرنا حرام ہے، كسى بھى مسلمان شخص كے ليے عقد نكاح سے قبل طلاق كى نيت كرنا جائز نہيں.
مزيد اہميت كى خاطر سوال نمبر ( 27104 ) اور ( 91962 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
اور ہم آپ كے ساتھ ہيں اور اس طرح كے معاملہ ميں آپ كو خشيت الہى كا حكم ديتے ہيں، اللہ كى بندى چاہے وہ تمہارى بيٹى ہو كيا تم اس پر راضى ہو گى كہ كوئى اس سے طلاق كى نيت سے شادى كرے ؟!
كيا آپ كے شايان شان اور لائق ہے كہ تم اپنے بيٹے كى مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے صرف اس كے متعلق سوچو اور اس كے ليے خير تلاش كرو چاہے دوسرے لوگوں كے حساب پڑ؟!
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ہم ايك سفر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو شخص آگ سے دور ہونا چاہتا اور جنت ميں داخل ہونا چاہتا ہے تو اسے موت اس حالت ميں آئے كہ اس كا اللہ تعالى پر ايمان ہو، اور لوگوں كے ساتھ وہى سلوك كرے جو اپنے ساتھ پسند كرتا ہو ..... " الحديث
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1844).
واللہ اعلم .