اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ورزش كے دوران موسيقى سننا

تاریخ اشاعت : 26-10-2007

مشاہدات : 7866

سوال

ميں عورتوں كے ليے مخصوص كرہ ہال ميں ورزش كرتى ہوں، مجھے بہت سے نفسياتى اور جسمانى مشكلات كا سامنا تھا، اب ورزش اور اس كے ساتھ ساتھ قرآن مجيد كى تلاوت اور دعائيں پڑھنے سے ميرى حالت ميں پہلے سے بہت بہتر ہے، سوال يہ ہے كہ:
كيا روبٹ ورزش كرنى جائز ہے، يہ علم ميں رہے كہ ہمارى معلمہ كے مطابق ورزش ميں موسيقى ركھى جاتى ہے، تو مجھے كيا كرنا چاہيے، ميں اس مسئلہ ميں بہت پريشان ہوں، مجھے ورزش بہت پسند ہے، اور كوئى بھى ايسا ہال اور معلمہ نہيں جو موسيقى كے بغير ورزش كرائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عورت كے ليے وزرش كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ ہال اور جگہ عورتوں كے ليے ہى مخصوص ہو، اور كوئى بھى مرد وہاں نہ جا سكے، اور يہ ورزش محدود ہونى چاہيے كہ اس سے كوئى واجب كام ضائع نہ ہو، اس ليے نہ تو يہ روزش نماز كے ضائع ہونے يا اس ميں تاخير كا باعث نہ ہو، يا كوئى اور واجب و فرض چيز كے ضائع ہونے كا باعث نہ ہو.

وزرش كے ليے مخصوص ہال ميں ورزشى كھيلوں ميں بعض اوقات حرام امور بھى پائے جاتے ہيں، مثلا: موسيقى كا استعمال اور موسيقى كى سماعت وغيرہ.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو مالك اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم و شراب اور گانے بجانے كو حلال كر لينگے "

الحر زنا كو كہتے ہيں.

اس حديث سے گانے بجانے اور اس كے آلات كا حكم واضح ہوتا ہے كہ يہ حرام ہے، اور اسے دوسرى حرام اشياء ريشم اور شراب اور زنا سے ملا كر ذكر كرنا اس كى حرمت ميں اور بھى تاكيد پيدا كرتا ہے.

اور گانے بجانے اور اس كے آلات كى حرمت ميں آئمہ اربعہ كا كوئى اختلاف نہيں ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس كسى نے بھى يہ گانے بجانے كا كام بطور دين اور تقرب كے حصول كے ليے كيا تو بلا شبہ اس كى گمراہى و جہالت ميں كوئى شك نہيں، ليكن اگر وہ اسے بطور تفريح اور كھيل اختيار كرتا ہے تو آئمہ اربعہ كا مذہب يہى ہے كہ آلات لہو يعنى گانے بجانے كے سب آلات حرام ہيں؛ صحيح بخارى وغيرہ ميں حديث ہے كہ:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خبر دى كہ: ان كى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانے بجانے كو حلال كر لينگے "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ذكر كيا كہ انہيں مسخ كر كے بند اور خنزير بنا ديا جائےگا.

اور معازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں، جيسا كہ اہل لغت نے بيان كيا ہے: المعازف معزف كى جمع ہے، اور يہ اس آلہ كو كہتے ہيں جس كے ساتھ گايا جاتا اور آواز نكالى جاتى ہے، اور آئمہ اربعہ كے كسى بھى معتقد اور متبع سے گانے بجانے كے آلات ميں كوئى نزاع بيان نہيں كيا جاتا " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 11 / 576 - 577 ).

اور موسيقى دل كو تباہ و تلف كر كے ركھ ديتى ہے، اور نفس كو حق سے دور كرتى ہے، اور دل ميں نفاق كو پختہ كرتى ہے، اور موسيقى كے ليے ممكن ہى نہيں كہ يہ اعصاب كو تھكن سے دور ركھے، اور نہ ہى علاج بن سكتى ہے.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" موسيقى وغيرہ كے دوسرے آلات لہو سب شر و بلاء ہيں، ليكن يہ ان اشياء ميں بھى شامل ہيں جسے شيطان مزين كر كے بطور لذت پيش كرتا ہے، اور اس كى دعوت ديتا ہے تا كہ نفس حق كو چھوڑ كر باطل ميں مشغول ہو جائے، حتى كہ يہ اشياء اسے اللہ تعالى كى پسنديدہ امور سے موڑ كر اللہ تعالى كے ہاں ناپسند اور حرام امور كى طرف لے جائے.

تو موسيقى اور بانسرى اور باقى سب آلات لہو منكر اور برائى ہيں اور انہيں سننا اور استعمال كرنا جائز نہيں.

صحيح حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانے بجانے كے آلات كو حلال كر لينگے "

يہاں الحر سے مراد حرام شرمگاہ يعنى زنا ہے، اور المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 3 / 436 ).

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" رہا يہ كہ موسيقى علاج ہے، تو اس بات كى كوئى حقيقت اور اصل نہيں بلكہ يہ تو بےوقوف لوگوں كا عمل ہے، چنانچہ موسيقى علاج تو نہيں ليكن يہ بيمارى ضرور ہے، اور يہ گانے بجانے كے آلات ميں شامل ہوتى ہے، اور يہ سب كچھ دلوں كى بيمارى اور اخلاقيات ميں انحراف كا باعث ہيں بلكہ نفع مند علاج اور دل كو سكون دينے والى چيز تو مريض كے ليے قرآن مجيد كى سماعت ہے، اور مفيد قسم كى تقارير اور احاديث ہيں، ليكن موسيقى اور دوسرے گانے بجانے كے آلات استعمال كر كے علاج كرنا تو انہيں باطل كا عادى بنائيگا، اور ان كى بيمارى اور مرض ميں اضافہ كا باعث ہى بنےگان اور ان كے ليے قرآن مجيد اور مفيد قسم كى تقارير كى سماعت كو بوجھ بنا كر ركھ دے گا، ولا حول و لا قوۃ الا باللہ " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 9 / 429 ).

مزيد تفصيلى معلومات ديكھنے كے ليے آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:

سوال نمبر ( 43736 ) اور ( 5000 ) اور ( 5011 ).

اس بنا پر آپ انہيں نصيحت كريں، اور ان كے سامنے واضح كريں كہ اسلام ميں موسيقى سننا حرام ہے، اور اس حرام كام كے ارتكاب كى كوئى ضرورت بھى نہيں، اور بہت سے ہال ايسے ہيں جو اس كا خيال ركھتے ہيں اور موسيقى نہيں لگاتے، جس كى بنا پر وہاں لوگوں كى تعداد ميں اضافہ ہوتا ہے، اور اگر وہ آپ كى يہ بات تسليم نہ كريں ـ تو كم از كم ـ وہ آپ كے وہاں جانے كے وقت ہى موسيقى استعمال نہ كريں، تا كہ آپ ان كى اس معصيت و گناہ ميں شريك ہو كر اس برائى كو روكنے پر سكوت اختيار نہ كريں جسے روكنا واجب ہے.

اور اگر يہ بھى ممكن نہ ہو تو آپ اس ہال كو چھوڑ ديں اور اس كے علاوہ كوئى اور جگہ ورزش كے ليے تلاش كر ليں، يا پھر آپ اس كا كوئى اور حل تلاش كرنے كا انتظار كريں، مثلا آپ ورزش كے كچھ آلات خريد ليں اور گھر ميں ان كے ذريعہ ورزش كر ليا كريں، تو آپ كے ليے يہ بہتر ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب