جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كفار سے مشابہت كے ضوابط و اصول

سوال

يورپ والوں سے مشابہت كے ضوابط كيا ہيں ؟؟
كيا ہر وہ نئى اور جديد چيز جو يورپ سے ہمارے ہاں آئے وہ ان سے مشابہت ہے ؟
يعنى دوسروں معنوں ميں اس طرح كہ: ہم كسى چيز پر كفار سے مشابہت ہونے كى بنا پر حكم كيا اطلاق كيسے كر سكتے ہيں كہ وہ حرام ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہي ميں سے ہے "

سنن ابو داود كتاب اللباس حديث نمبر ( 3512 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3401 ) ميں اسے حسن صحيح قرار ديا ہے.

المناوى اور العلقمى كہتے ہيں:

يعنى ظاہر ميں ا نكى شكل و صورت اختيار كرے، اور ان جيسا لباس پہنے، اور لباس پہننے اور بعض افعال ميں ان كے طريقہ پر چلے.

اور ملا على القارى كہتے ہيں: يعنى مثلا جو شخص لباس وغيرہ ميں اپنے آپ كو كفار كے مشابہ بنائے، يا فاسق و فاجر قسم لوگوں، يا صوفيوں اور صالح و ابرار لوگوں سے مشابہت كرے، " تو وہ انہي ميں سے ہے " يعنى گناہ اور بھلائى ميں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ " الصراط المستقيم " ميں لكھتے ہيں:

امام احمد وغيرہ نے اس حديث سے استدلال كيا ہے، اور اس حديث سے كم از كم چيز كفار سے مشابہت كى حرمت ثابت ہوتى ہے، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان ميں ہے:

" تم ميں سے جو انہيں اپنا دوست بنائے تو وہ انہي ميں سے ہے "

اور يہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كے قول جيسا ہى ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" جس نے مشركوں كى زمين ميں گھر بنايا، يا ان كے نيروز اور مہرجان تہوار منائے، اور ان سے مشابہت اختيار كى حتى كہ مر گيا، تو اسے روز قيامت انہيں كے ساتھ اٹھايا جائيگا "

اور اس پر بھى محمول كيا جا سكتا ہے كہ جس قدر وہ ان سے مشابہت اختيار كريگا اسى حساب سے وہ ان ميں شامل ہوگا، اگر تو وہ كفر يا معصيت يا ا نكى علامت اور شعار ہو تو اس كا حكم بھى اسى طرح كا ہو گا.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اعاجم سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كسى قوم سے مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے "

اسے ابو قاضى ابو يعلى نے ذكر كيا ہے، اور اس سے كئى ايك علماء نے غير مسلمانوں كى شكل و شباہت اختيار كرنے كى كراہت پر استدلال كيا ہے " اھـ

ديكھيں: عون المعبود شرح سنن ابو داود.

اور پھر كفار سے مشابہت دو طرح كى ہے:

حرام مشابہت.

اور مباح مشابہت.

پہلى قسم: حرام مشابہت:

وہ يہ ہے كہ كسى ايسے فعل كو سرانجام دينا جو كفار كے دين كے خصائص ميں سے ہے، اور ا سكا علم بھى ہو، اور يہ چيز ہمارى شرع ميں نہ پائى جائے... تو يہ حرام ہے، اور بعض اوقات تو كبيرہ گناہ ميں شامل ہو گى، بلكہ دليل كے حساب سے تو بعض اوقات كفر بن جائيگى.

چاہے كسى شخص نے اسے كفار كى موافقت كرتے ہوئے كيا ہو، يا پھر اپنى خواہش كے پيچھے چل كر، يا كسى شبہ كى بنا پر جو اس كے خيال ميں لائے كہ يہ چيز دنيا و آخرت ميں فائدہ مند ہے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: كيا اگر كسى نے يہ عمل جہالت كى بنا پر كيا تو كيا وہ اس سے گنہگار ہو گا، مثلا جيسے كوئى عيد ميلاد يا سالگرہ منائے ؟

تواس كا جواب يہ ہے كہ:

جاہل اپنى جہالت كى بنا پر گنہگار نہيں ہوگا، ليكن اسے تعليم دى جائيگى اور بتايا جائيگا، اور اگر وہ پھر بھى اصرار كرے تو گنہگار ہوگا.

دوسرى قسم: جائز تشبہ:

يہ ايسا فعل سرانجام دينا ہے جو اصل ميں كفار سے ماخوذ نہيں، ليكن كفار بھى وہ عمل كرتے ہيں، تو اس ميں ممنوع مشابہت نہيں، ليكن ہو سكتا ہے اسميں مخالفت كى منفعت فوت ہو رہى ہو.

اہل كتاب كے ساتھ دينى امور ميں مشابہت كچھ شروط كے ساتھ مباح ہے:

1 - وہ عمل ا نكى عادات اور شعار ميں شامل نہ ہوتا ہو، جس سے ان كفاركى پہچان ہوتى ہے.

2 - يہ كہ وہ عمل اور امر ا نكى شريعت ميں سے نہ ہو، اور ا سكا انكى شريعت ميں سے ہونے كو كوئى ثقہ ناقل ہى ثابت كر سكتا ہے، مثلا اللہ تعالى ہميں اپنى كتاب قرآن مجيد ميں بتا دے، يا پھر اپنے رسول كى زبان سے بتا دے، يا پھر متواتر نقل سے ثابت ہو جائے، جيسا كہ پہلى امتوں ميں سلام كے وقت جھكنا جائز تھا.

3 - ہمارى شريعت ميں ا سكا خاص بيان نہ ہو، ليكن اگر موافقت يا مخالفت ميں خاص بيان ہو تو ہم اس پر اكتفا كرينگے جو ہمارى شريعت ميں آيا ہے.

4 - يہ موافقت كسى شرعى امور كى مخالفت كا باعث نہ بن رہى ہو.

5 - ان كے تہواروں ميں موافت نہ ہو.

6 - اس ميں موافقت مطلوبہ ضرورت كے مطابق ہو، اس سے زائد نہ ہو.

ديكھيں: كتاب السنن والآثار فى النھى عن التشبہ بالكفار تاليف سھيل حسن صفحہ ( 58 - 59 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد