جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

دوران حج منى كى راتوں ميں مشت زنى كا ارتكاب كر ليا

سوال

ايك شخص ـ جس كى دينى حالت پتلى تھى ـ نے حج كيا اور دوران حج منى ك راتوں ميں سے ايك رات مشت زنى كا ارتكاب كر ليا تو كيا اس پر كچھ واجب ہوتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بندے كو اس وقت بہت تعجب ہوتا كہ جب وہ يہ سنے كہ حجاج كرام جو اپنے اہل و عيال اور گھر بار چھوڑ كر اپنے دلوں اور بدن كے ساتھ حج كى ادائيگى كے ليے آئے ہوں جو كہ اركان اسلام كا ايك ركن ہے اور پھر ان ميں سے كوئى ايك اللہ تعالى كى نافرمان كرے اور وہ بھى كہاں ؟ مشاعر مقدسہ يعنى مقدس سرزمين ميں، بلكہ حرم كى حدود ميں اور پھر منى كے اندر جو حدود حرم ميں شامل ہے.

سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں مشت زنى كى حرمت بيان ہو چكى ہے، اس ميں كوئى شك نہيں كہ جگہ اور وقت كى عظمت كى بنا پر گناہ بھى عظيم اور بڑا ہو جاتا ہے، اور اس معصيت ميں يہى كچھ ہوا ہے، جو كہ حرم كى حدود اور تعظيم كے وقت يعنى ايام تشريق اور حج اور اللہ تعالى كے ذكر كے دنوں ميں ہوئى ہے.

حج ميں معصيت و گناہ سے حج كے ثواب ميں كمى واقع ہو جاتى ہے علماء كرام نے حج مبرور كے متعلق كہا ہے كہ:

حج مبرور وہ ہے جس ميں كوئى گناہ اور معصيت نہ ہو، اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے حج كيا اور اس ميں نہ تو بيوى سے جماع كيا اور نہ ہى كوئى گناہ كيا تو وہ اس طرح واپس پلٹتا ہے جس طرح آج ہى ماں كے پيٹ سے اس نے جنم ليا ہو "

يعنى وہ گناہوں كے بغير پلٹتا ہے.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1521 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1350 ).

لہذا سوال كرنے والے پر اللہ تعالى سے توبہ و استغفار كرنى واجب ہے، اور وہ اپنے كيے پر نادم ہو اور يہ عزم كرے كہ آئندہ اس گناہ كو نہيں كرے گا، اور اس كے ساتھ ساتھ اطاعت و فرمانبردارى اور اللہ تعالى سے اس كى قبوليت كى دعاء كثرت سے كرے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" مطلق گناہ اور معصيت كا ارتكاب حج كے ثواب ميں كمى كرتا ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

جس نے بھى ان ميں اپنے اوپر حج لازم كرلے وہ بيوى كے ساتھ ملاپ اور حج ميں گناہ اور جھگڑا نہ كرے البقرۃ ( 197 ).

بلكہ بعض اہل علم كا تو كہنا ہے كہ:

حج ميں معصيت و نافرمانى حج كو فاسد كر ديتى ہے؛ كيونكہ حج ميں ايسا كرنے سے منع كيا گيا ہے، ليكن جمہور اہل علم اپنے معروف اصول اور قاعدہ پر ہيں كہ جب تحريم عبادت كے ساتھ خاص نہ ہو تو وہ اسے باطل نہيں كرتى، اور معاصى احرام كے ساتھ خاص نہيں، كيونكہ احرام كى حالت اور احرام كى حالت كے علاوہ ميں بھى معصيت حرام ہے اور صحيح بھى يہى ہے، يہ معاصى حج كو باطل نہيں كرينگى ليكن اس كے اجروثواب ميں كمى كا باعث ہونگى" اھـ

ديكھيں: فتاوى اركان اسلام صفحہ نمبر ( 571 ).

اور شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى سے سوال كياگيا كہ:

ايك شخص نے احرام كى حالت ميں عرفات جانے سے قبل مشت زنى كا ارتكاب كر ليا تو اس كا حكم كيا ہے؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" علماء كرام كےصحيح قول كے مطابق اس كا حج صحيح ہے، آپ كو اس سے اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرنى چاہيے؛ كيونكہ مشت زنى حج اور حج كے علاوہ ہر حالت ميں حرام ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور وہ لوگ جو اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كرتے ہيں، بجز اپنى بيويں اور لونڈيوں كے يہ ملامت زدہ نہيں، اور جو بھى اس كے علاوہ چاہے گا وہى زيادتى كرنے والے ہيں المومنون ( 5 - 7 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: اللقاء الشھری نمبر ( 17 ) ۔