جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

عورت كے رحم سے نكلنے والے غلاضت كا حكم

سوال

بعض اوقات ميں محسوس كرتى ہوں كہ انڈروئير پر شفاف پانى سا لگا ہے جس كے خارج ہونے كا مجھے احساس تك نہيں ہوتا، كيا اسى حالت ميں نماز ادا كرنا جائز ہے، اور اگر جائز نہيں تو كيا انڈر وئير تبديل كر كے وضوء دوبارہ كرنا ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

خارج ہونے والے اس مادہ پر كلام دو مسئلوں ميں ہو گى:

پہلا مسئلہ:

كيا يہ طاہر ہے يا نجس ؟

ابو حنيفہ اور امام احمد كا مسلك اور امام شافعى سے ايك روايت ـ جسے امام نووى نے صحيح كہا ہے ـ يہ ہے كہ يہ طاہر ہے، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے. اللہ سب پر رحم فرمائے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ الشرح الممتع ميں كہتے ہيں:

" اور اگر تو يہ ـ يعنى خارج ہونے والا مادہ ـ عضو تناسل كے مشكيزے سے ہو تو يہ پاك ہے، كيونكہ يہ كھانے پينے كے فضلات سے نہيں لہذا يہ پيشاب نہيں ہے، اور اصل ميں اس كا نجس نہ ہونا ہى ہے حتى كہ اس كى كوئى دليل مل جائے، اور اس ليے بھى كہ اس كو يہ لازم نہيں كہ جب وہ اپنى بيوى سے جماع كرے تو اپنا عضو تناسل دھوئے، اور اگر كپڑوں كو لگ جائے تو نہ ہى كپڑا دھونا لازم آتا ہے، اور اگر يہ نجس ہو تو پھر اس سے يہ لازم آتا ہے كہ منى بھى نجس ہونى چاہيے كيونكہ وہ اس سے لتھڑتا ہے " اھـ

ديكھيں: الشرح الممتع ( 1 / 392 ) اور المجموع ( 1 / 406 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 2 / 88 ) بھى ديكھيں.

اس بنا پر اگر يہ رطوبت لگ جائے نہ تو اس سے كپڑے دھونے واجب ہيں، اور نہ ہى تبديل كرنے.

دوسرا مسئلہ:

كيا اس مادہ اور رطوبت كے خارج ہونے سے وضوء ٹوٹتا ہے يا نہيں ؟

اكثر علماء كے ہاں اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے حتى وہ كہتے ہيں:

" ميرى طرف اس كے علاوہ جو قول منسوب كيا جاتا ہے وہ صحيح نہيں، اور ظاہر يہ ہوتا ہے كہ ميرے اس قول سے كہ يہ طاہر ہے وہ يہ سمجھ بيٹھا ہے كہ اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / 287 ).

اور ان كا يہ بھى كہنا ہے:

اور بعض عورتوں كا يہ اعتقاد ركھنا كہ اس سے وضوء نہيں ٹوٹتا ميرے علم ميں تو ابن حزم كے قول كے علاوہ كوئى اصل اور دليل نہيں ہے " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ ابن عثيمين ( 11 / 285 ).

ليكن .. اگر عورت كى يہ رطوبت مسلسل خارج ہوتى ہو تو وہ ہر نماز كے ليے نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرےگى، اور وضوء كرنے كے بعد اگر يہ رطوبت خارج ہو تو اسے كوئى نقصان اور ضرر نہيں چاہے نماز ميں ہى خارج ہو.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر تو مذكورہ رطوبت مسلسل اور غالب اوقات خارج ہوتى ہو تو جس عورت سے بھى يہ رطوبت خارج ہو وہ استحاضہ والى عورت، اور مسلسل پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص كى طرح ہر نماز كے ليے نماز كا وقت شروع ہونے كے بعد وضوء كرے، ليكن اگر يہ رطوبت بعض اوقات خارج ہوتى ہو ـ مسلسل نہيں ـ تو اس كا حكم پيشاب والا ہى ہے جب بھى يہ رطوبت خارج ہو وضوء ٹوٹ جائيگا چاہے نماز ميں ہى ہو " اھـ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 130 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 37752 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب