جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

بدن سے خون نكلنے سے وضوء نہيں ٹوٹتا

سوال

كيا بدن سے خارج ہونے والے خون سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بدن سے خارج ہونے والى نجاست كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

پيشاب يا پاخانہ ہو اور عام اور معتاد راستے سے خارج ہو، تو اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، اس كے كتاب و سنت اور اجماع ميں دلائل موجود ہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اگر تم مريض ہو يا مسافر يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كر كے آئے يا تم نے اپنى بيويوں كے ساتھ ہم بسترى كى ہو اور تمہيں پانى نہ ملے تو تم پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو، اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھ پر مسح كرو المآئدۃ ( 6 ).

امام ترمذى رحمہ اللہ نے صفوان بن عسال رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ"

" ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم حكم ديا كرتے تھے كہ جب ہم سفر ميں ہوں تو اپنے موزے تين دن اور راتيں نہ اتاريں، مگر جنابت سے، ليكن پاخانہ اور پيشاب اور نيند سے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 96 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

يہاں پاخانہ اور پيشاب اور نيند نواقض وضوء ميں بيان كيے گئے ہيں.

دوسرى حالت:

يہ كہ وہ پيشاب اور پاخانہ ہو ليكن كسى اور راستے سے خارج ہو مثلا اگر كسى كا آپريشن كر كے اس كے پيٹ ميں سوراخ كر ديا جائے اور پاخانہ وہاں سے خارج ہونے لگے، تو يہ بھى نواقض وضوء ميں شامل ہوگا كيونكہ مندرجہ بالا دلائل پيشاب اور پاخانہ كے خارج ہونے سے وضوء ٹوٹنے پر دلالت كرتے ہيں، اور ان دلائل كا عموم اس پر دلالت كرتا ہے كہ پيشاب يا پاخانہ معتاد راستے سے خارج ہو يا كسى اور راستے سے دونوں طرح وضوء توڑ ديگا.

تيسرى حالت:

بدن سے خارج ہونے والى نجاست پيشاب اور پاخانہ كے علاوہ كوئى چيز ہو مثلا خون يا جو علماء قئ كو نجس قرار ديتے ہيں.

اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:

بعض مثلا ابو حنيفہ، امام احمد دونوں نے كچھ اختلاف كيا ہے جس كى تفصيل ہے كہتے ہيں كہ اس سے وضوء ٹوٹ جاتا ہے، انہوں درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ والى عورت كو فرمايا تھا:

" بلكہ يہ تو رگ كا خون ہے، اس ليے تم ہر نماز كے ليے وضوء كرو "

ان كا كہنا ہے كہ: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء كے وجوب كى علت يہ بيان كى كہ يہ رگ كا خون ہے، اور ہر خون اسى طرح كا ہے.

2 - امام ترمذى نے معدان بن ابى طلحہ سے بيان كيا ہے وہ ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قئ كى اور روزہ افطار كيا اور وضوء كيا "

تو ميں ثوبان رحمہ اللہ كو دمشق كى مسجد ملا اور ان سے يہ حديث بيان كى تو وہ كہنے لگے:

ميں نے ان كے وضوء كرنے كے ليے پانى ڈالا تھا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 87 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اكثر علماء كرام كا كہنا ہے كہ بدن سے نجاست خارج ہونا ناقض وضوء نہيں، اور دليل يہ ديتے ہيں كہ اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا، اور اس سے وضوء ٹوٹنے كى كوئى صحيح دليل نہيں ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں ميرا بہتر اوراچھا اعتقاد يہى ہے كہ اصل ميں وضوء نہيں ٹوٹا حتى كہ شريعت مطہرہ سے وضوء ٹوٹنا ثابت ہو جائے، اور يہ ثابت نہيں " انتہى.

اس سے وضوء ٹوٹنے والوں كے دلائل كا درج ذيل جواب ديتے ہيں:

استحاضہ والى حديث كا جواب يہ ديا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے حيض كے خون كى نفى چاہى ہے، يعنى يہ حيض كا خون نہيں، بلكہ يہ رگ كا خون ہے، اور اگر ايسا ہى ہے تو پھر تم نماز نہ چھوڑو بلكہ نماز ادا كرو، ليكن ہر نماز كے ليے نيا وضوء كرنا ہوگا.

امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں رقمطراز ہيں:

" اگر ـ يعنى استحاضہ والى حديث ـ صحيح ہو تو اس كا معنى يہ ہے كہ اسے يہ معلوم كرانا تھا كہ يہ حيض كا خون نہيں، بلكہ وضوء ٹوٹنے والى جگہ سے خارج ہونے سے وضوء كا موجب ہے، اور اس سے يہ مراد نہيں كہ خون ـ جہاں سے بھى خارج ہو ـ خارج ہونے سے وضوء واجب ہو جاتا ہے " انتہى.

اور ثوبان كى حديث كے كئى ايك جواب ديے گئے ہيں:

1 - يہ حديث ضعيف ہے، امام نووى رحمہ اللہ " المجموع ميں كہتے ہيں: ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث سے ان كے استدلال كا جواب كئى ايك وجوہ سے ہے: جن ميں سب سے بہتر اور اچھى يہ ہے كہ وہ حديث ضعيف اور مضطرب ہے، بيھقى وغيرہ دوسرے حفاظ كا يہى كہنا ہے " انتہى.

2 - يہ كہ ـ اسے صحيح تسليم كرنے اور اس كے ثابت ہونے كى صورت ميں ـ يہ حديث قئ خارج ہونے سے وضوء ٹوٹنے پر دلالت نہيں كرتى، كيونكہ صرف يہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فعل ہے، جو كہ قئ سے وضوء كرنے كے استحباب پر دلالت كرتا ہے، نہ كہ وجوب پر.

مزيد تفصيل كے ليے آپ المجموع للنووى ( 2 / 63 - 65 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 1 / 247 - 250 ) اور الشرح الممتع ابن عثيمين ( 1 / 185 - 189 ) كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب