"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
الحمد للہ.
جب خاوند طلاق كى قسم كھائے كہ تم اپنے ميكے مت جاؤ تو كيا آپ كا ميكے جانے سے طلاق ہو گى يا نہيں ؟
اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:
اكثر علماء كرام تو كہتے ہيں كہ ميكے جانے سے ہى طلاق واقع ہو جائيگى، كيونكہ يہ طلاق شرط پر معلق ہے، اور جب شرط واقع ہو جائے تو طلاق بھى ہو جائيگى.
ديكھيں: المغنى ( 7 / 372 ).
ليكن بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كا مسلك ہے كہ اگر طلاق قسم كى جگہ ہو اور طلاق دينے والا شخص كا مقصد كسى چيز پر ابھارنا اور كسى چيز سے منع كرنا مراد ہو اور اس سے وہ طلاق مراد نہ لے تو قسم توڑنے كے وقت صرف اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور طلاق نہيں ہوگى.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اس بنا پر آپ كے خاوند كى نيت ديكھى جائيگى، اگر تو اس نے شرط پورى ہونے كى حالت ميں طلاق كى نيت كى تھى تو طلاق واقع ہوگئى، اور اگر اس نے اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كسى چيز سے منع كرنا، يا پھر اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كوئى كام كرنے پر ابھارنا مقصود ليا اور طلاق كا ارادہ نہ تھا، پھر اس نے قسم توڑ دى تو اس پر قسم كا كفارہ كى ادائيگى لازم ہے، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.
ليكن آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ نے كہا: اس كى نيت طلاق كى تھى، اس بنا پر اگر آپ اپنے ميكے گئيں تو ايك طلاق واقع ہو جائيگى چاہے اس نے تكرار سے قسم كھائى تھى.
خاوند كو اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے طلاق كى قسم اٹھانے سے باز رہنا چاہيے كيونكہ كثرت سے ايسا كرنے سے اپنى بيوى كے ساتھ حرام زندگى بسر كرنے تك لےجا سكتا ہے اور يہ بيمارى آج كل عام ہو چكى ہے، كہ جس بيوى كو خاوند نے كئى بار طلاق دى اس كے ساتھ حرام زندگى بسر كرتا رہتا ہے اور اپنے آپ كو بھى دھوكہ ديتا اور حرام زندگى گزارتا ہے، اور اولاد بھى حرام پيدا كرتا ہے، حالانكہ حقيقت ميں وہ زانى اور فاجر ہے اور وہ عورت بھى اسى طرح زانيہ اور فاجرہ، وہ اپنے دل ميں تمنائيں كرتے پھرتے ہيں، اور اولاد ہونے كى بنا پر اس چيز سے آنكھيں بند كر ليتے ہيں، اگر خاوند اپنى زبان كو قسم سے محفوظ ركھے تو اس كا معاملہ بڑا آسان رہتا.
اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ عافيت و سلامتى سے نوازے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 39941 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .