بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

خاوند نے طلاق كى قسم اٹھائى كہ بيوى اپنے ميكے نہ جائے

104614

تاریخ اشاعت : 21-06-2010

مشاہدات : 4975

سوال

ميرے خاوند نے ايك ہى وقت بغير كسى وقفہ كے كئى بار طلاق كى قسم اٹھائى كہ ميں اپنے ميكے نہ جاؤں، اور جب ميں نے اس سے اس كى نيت كے متعلق دريافت كيا تو وہ كہنے لگا ميں نے طلاق كى نيت كى تھى، اور يہ اس ليے تھا كہ جب وہ ٹھنڈا ہو تو مجھے كہيں جانے كى اجازت دے دے، يعنى وہ اپنے آپ كو مجھے ميكے جانے كى اجازت دينے سے روكنا چاہتا تھا اور مجھے بھى ميكے جانے سے روكنا چاہتا تھاز
ميں يہ بھى واضح كرنا چاہتى ہوں كہ ميرا خاوند طلاق كى بہت زيادہ قسميں اٹھاتا ہے، يا تو وہ دھمكانے كے ليے قسم اٹھاتا ہے، يا پھر مجھے كوئى كام روكنے كے ليے، مجھے تو يہى ظاہر ہوتا ہے اس كى اس قسم كا مقصد اور غرض و غايت مجھے ادب سكھانا اور مجھے اپنے ميكے والوں سے ملاقات كرنے سے روكنا ہے كيونكہ ميں نے اسے ناراض كيا تھا.
يہ چيز ميں اس ليے كہہ رہى ہوں كہ ميں اپنے خاوند كے بارہ ميں جانتى ہوں اور ہمارى زندگى ميں اس كى سوچ اور تصرف كا يہى طريقہ ہے، ميں يہ معلوم كرنا چاہتى ہوں كہ آپ پورى وضاحت كے ساتھ بتائيں كہ يہ طلاق ہے يا كہ قسم ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب خاوند طلاق كى قسم كھائے كہ تم اپنے ميكے مت جاؤ تو كيا آپ كا ميكے جانے سے طلاق ہو گى يا نہيں ؟

اس مسئلہ ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے:

اكثر علماء كرام تو كہتے ہيں كہ ميكے جانے سے ہى طلاق واقع ہو جائيگى، كيونكہ يہ طلاق شرط پر معلق ہے، اور جب شرط واقع ہو جائے تو طلاق بھى ہو جائيگى.

ديكھيں: المغنى ( 7 / 372 ).

ليكن بعض اہل علم جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كا مسلك ہے كہ اگر طلاق قسم كى جگہ ہو اور طلاق دينے والا شخص كا مقصد كسى چيز پر ابھارنا اور كسى چيز سے منع كرنا مراد ہو اور اس سے وہ طلاق مراد نہ لے تو قسم توڑنے كے وقت صرف اسے قسم كا كفارہ ادا كرنا ہوگا، اور طلاق نہيں ہوگى.

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى يہى فتوى ديا ہے، اس بنا پر آپ كے خاوند كى نيت ديكھى جائيگى، اگر تو اس نے شرط پورى ہونے كى حالت ميں طلاق كى نيت كى تھى تو طلاق واقع ہوگئى، اور اگر اس نے اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كسى چيز سے منع كرنا، يا پھر اپنے آپ يا كسى دوسرے كو كوئى كام كرنے پر ابھارنا مقصود ليا اور طلاق كا ارادہ نہ تھا، پھر اس نے قسم توڑ دى تو اس پر قسم كا كفارہ كى ادائيگى لازم ہے، اور اس سے طلاق واقع نہيں ہوگى.

ليكن آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ نے كہا: اس كى نيت طلاق كى تھى، اس بنا پر اگر آپ اپنے ميكے گئيں تو ايك طلاق واقع ہو جائيگى چاہے اس نے تكرار سے قسم كھائى تھى.

خاوند كو اللہ كا تقوى اور ڈر اختيار كرتے ہوئے طلاق كى قسم اٹھانے سے باز رہنا چاہيے كيونكہ كثرت سے ايسا كرنے سے اپنى بيوى كے ساتھ حرام زندگى بسر كرنے تك لےجا سكتا ہے اور يہ بيمارى آج كل عام ہو چكى ہے، كہ جس بيوى كو خاوند نے كئى بار طلاق دى اس كے ساتھ حرام زندگى بسر كرتا رہتا ہے اور اپنے آپ كو بھى دھوكہ ديتا اور حرام زندگى گزارتا ہے، اور اولاد بھى حرام پيدا كرتا ہے، حالانكہ حقيقت ميں وہ زانى اور فاجر ہے اور وہ عورت بھى اسى طرح زانيہ اور فاجرہ، وہ اپنے دل ميں تمنائيں كرتے پھرتے ہيں، اور اولاد ہونے كى بنا پر اس چيز سے آنكھيں بند كر ليتے ہيں، اگر خاوند اپنى زبان كو قسم سے محفوظ ركھے تو اس كا معاملہ بڑا آسان رہتا.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ عافيت و سلامتى سے نوازے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 39941 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب