"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
دین اسلام میں کتنے درجے ہیں؟ اور ہر مرتبے کی خصوصیات کیا ہیں؟ نیز یہ بھی بتلائیں کہ اسلام، ایمان اور احسان میں کیا فرق ہے؟ اسی طرح یہ بھی وضاحت کر دیں کہ محسنین کو احسان کا کون سا مقام ملتا ہے؟
دین اسلام میں تین درجات ہیں: اسلام، ایمان، اور احسان۔ ان میں سے ہر درجے کا مخصوص مفہوم اور معنی ہے، اور اس کے ارکان بھی ہیں، جن کی تفصیلات آپ کو مفصل جواب میں ملیں گی۔
الحمد للہ.
دین اسلام میں تین درجات ہیں: اسلام، ایمان، اور احسان۔ ان میں سے ہر درجے کا مخصوص مفہوم اور معنی ہے، اور اس کے ارکان بھی ہیں۔
اسلام کا لغوی معنی: فرمانبرداری اور اطاعت گزاری ہے۔
جبکہ شرعی طور پر لفظ اسلام کا معنی استعمال کے حساب سے دو الگ الگ معانی دیتا ہے:
پہلا استعمال: جس وقت لفظ اسلام کے ساتھ ایمان کا تذکرہ نہ ہو تو پھر ایسی صورت میں اسلام سے دین اسلام کے اصولی اور فروعی تمام امور مراد ہوتے ہیں، اس میں قولی ،فعلی اور تمام اعتقادی چیزیں بھی شامل ہوتی ہیں، مثلاً: فرمانِ باری تعالی ہے: إن الدين عند الله الإسلام ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی کے ہاں دین اسلام ہے۔ [آل عمران: 19] اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے: ورضيت لكم الإسلام دينا ترجمہ: اور میں نے تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے۔ [المائدۃ: 3] اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه ترجمہ: اور جو کوئی بھی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کرے تو اس سے وہ کبھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ [آل عمران: 85] ان تمام آیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ اہل علم نے اسلام کی شرعی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے:
اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اپنا سب کچھ اللہ کے سپرد کر دینا، اور شرک و مشرکوں سے لا تعلقی اپنانے کا نام اسلام ہے۔
دوسرا استعمال: لفظ اسلام کو ایمان کے ساتھ ملا کر ذکر کیا جائے، تو ایسی صورت میں اسلام سے مراد ظاہری اقوال و افعال ہوتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قالت الأعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا أسلمنا ولما يدخل الإيمان في قلوبكم
ترجمہ: خانہ بدوشوں نے کہا: ہم ایمان لے آئے۔ کہو: تم ابھی ایمان نہیں لائے، لیکن تم کہو: ہم اسلام قبول کر چکے؛ کیونکہ ابھی تک ایمان تمہارے دلوں تک داخل نہیں ہوا۔ [الحجرات: 14]
عامر بن سعد بیان کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ : ” رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد بن ابو وقاص کی موجودگی میں چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا ، تو سعد کہنے لگے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا حضور آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا ، اللہ کی قسم !میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (مومن یا مسلمان؟) سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر دوبارہ اس شخص کے بارے میں اپنی معلومات کی بنا پر بول اٹھا کہ: حضور آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا، اللہ کی قسم !میں اسے مومن سمجھتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (مومن یا مسلمان؟) تو سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :اب کی بار بھی میں تھوڑی دیر چپ رہا پھر دوبارہ اس شخص کے بارے میں اپنی معلومات کی بنا پر بول اٹھا کہ: حضور آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا ، اللہ کی قسم !میں اسے مومن سمجھتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : (مومن یا مسلمان؟) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مزید فرمایا : اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے ( پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے ) کسی اور کو اس خوف کی وجہ سے مال دے دیتا ہوں کہ ( وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر نہ جائے اور ) اللہ اسے آگ میں اوندھا نہ ڈال دے۔ ” اس حدیث کو امام بخاری: (27) اور مسلم : (150) نے روایت کیا ہے۔
تو سعد رضی اللہ عنہ نے کسی کے بارے میں قسم اٹھا کر کہا کہ : “اللہ کی قسم !میں اسے مومن سمجھتا ہوں” تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بار بار فرمایا: “مومن یا مسلمان؟” یعنی مطلب یہ ہے کہ: تمہیں اس کے مومن ہونے کے بارے میں علم نہیں ہے؛ کیونکہ ایمان دل کا معاملہ ہے، جبکہ آپ کو صرف اس کے اسلام کا علم ہے جو کہ ظاہری اعمال پر بولا جاتا ہے۔
لغوی طور پر ایمان کا معنی ہے: ایسی قلبی تصدیق جس کا نتیجہ قبول کرنا اور تابع فرمان ہو جانا ہو۔
شرعی طور پر ایمان کا مفہوم بھی استعمال کے اعتبار سے الگ الگ ہے، لفظ ایمان کے استعمال کی بھی دو حالتیں ہیں:
پہلی حالت: صرف لفظ ایمان استعمال ہو، ساتھ میں اسلام کا لفظ نہ آئے تو ایسی صورت حال میں سارے کا سارا دین ایمان سے مرا دلیا جاتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
الله ولي الذين آمنوا يخرجهم من الظلمات إلى النور
ترجمہ: اللہ تعالی ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان والے ہیں، اللہ تعالی انہیں اندھیروں سے نور کی جانب نکالتا ہے۔ [البقرۃ: 257]
اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ: وعلى الله فتوكلوا إن كنتم مؤمنين ترجمہ: اگر تم ایمان والے ہو تو صرف اللہ تعالی پر ہی توکل کرو۔ [المائدۃ: 23]
ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جنت میں صرف اہل ایمان ہی جائیں گے۔) اسے مسلم : (114)نے روایت کیا ہے۔
ان تمام دلائل کی روشنی میں سلف صالحین کا اس بات پر اجماع ہے کہ : ایمان دل سے تصدیق، زبان سے اقرار اور اعضا سے عمل کا نام ہے، اس میں قلبی اعمال بھی شامل ہیں، نیز نیکی کرنے سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہ کرنے سے کم ہوتا ہے۔
اسی لیے اللہ تعالی نے ایمان دار اسی کو قرار دیا ہے جو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے دینداری پر کار بند رہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَاناً وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ * الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ * أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقّاً لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
ترجمہ: سچے مومن تو وہ ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب اللہ کی آیات انہیں سنائی جائیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں ۔ [2] یہ وہ لوگ ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہوا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ [3] یہی لوگ سچے مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے ہاں بلند درجات ، مغفرت اور نہایت عزت افزائی والا رزق ہے۔ [الانفال: 2 – 4]
اللہ تعالی نے ان تمام چیزوں کو اپنے ایک فرمان میں ذکر کرتے ہوئے ایمان کی تفسیر اور وضاحت بھی بیان فرمائی ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آَمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآَخِرِ وَالْمَلَائِكَة وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآَتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآَتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْس
ترجمہ: نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔ اور اللہ سے محبت کی خاطر اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، سوال کرنے والوں کو اور غلامی سے نجات دلانے کے لیے دے۔ نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے۔ نیز (نیک لوگ وہ ہیں کہ) جب عہد کریں تو اسے پورا کریں اور بدحالی، مصیبت اور جنگ کے دوران صبر کریں۔ [البقرۃ: 177] پھر اس کے بعد ان سب خوبیوں کو ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالی نے فرمایا: أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ترجمہ: ایسے ہی لوگ راست باز ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں ۔ [البقرۃ: 177]
ایسے ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان تمام اعمال کا ذکر کر کے ایمان کی وضاحت وفد عبد القیس کی حدیث میں فرمائی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (میں تمہیں صرف ایک اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا جانتے ہو کہ ایک اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔) اس حدیث کو امام بخاری: (53) اور مسلم : (17) نے روایت کیا ہے۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان کے روزے جو ایمان اور ثواب کی امید سے رکھے گئے ہوں کو بھی ایمان قرار دیا ہے، ایسے ہی لیلۃ القدر کے قیام کو بھی ایمان کا حصہ قرار دیا، اسی طرح امانت کی ادائیگی، جہاد، حج، جنازہ دفنانے کے لیے جانا وغیرہ ان سب اعمال کو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ جیسے کہ صحیح حدیث میں ہے کہ: (ایمان کی ستر سے زائد شاخیں ہیں، سب سے بلند شاخ لا الہ الا اللہ کا اقرار ہے، اور سب سے کم راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (9) اور مسلم : (35) نے روایت کیا ہے۔ اس حوالے سے آیات اور احادیث بہت زیادہ موجود ہیں، جن کے تذکرے سے گفتگو لمبی ہو جائے گی۔
دوسری حالت: لفظ ایمان کو اسلام کے ساتھ ملا کر استعمال کیا جائے، تو اس صورت میں ایمان سے مراد قلبی اعتقادات اور نظریات ہوں گے، جیسے کہ حدیث جبریل اور جیسی دیگر احادیث میں ہے، اس کی ایک مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت جنازے کی دعا میں بھی موجود ہے کہ اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان یعنی: یا اللہ! تو ہم میں سے جسے زندہ رکھے اسے اسلام پر زندہ رکھ اور ہم میں سے تو جسے فوت کر لے تو اسے ایمان پر فوت فرما۔ اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1024) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا، نیز البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح سنن ترمذی : (1 / 299) میں صحیح قرار دیا ہے۔ جنازے کی دعا میں یہ تفریق اس لیے ہے کہ جسمانی اعضا سے اعمال زندگی میں ممکن ہوتے ہیں ، جبکہ موت کے وقت صرف قلبی اعمال اور اعتقادات ہی ممکن ہوتے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ: جب لفظ اسلام اور ایمان دونوں الگ الگ استعمال ہوں تو پھر دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ دونوں سے ہی پورے کا پورا دین مراد ہو گا، اور اگر دونوں میں فرق بیان کرنا ہو تو پہلے اس تفریق کو بیان کیا جا چکا ہے، یعنی: اسلام ظاہری جسمانی عبادات سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ ایمان قلبی امور سے تعلق رکھتا ہے۔ یہی بات حدیث جبریل میں موجود ہے، جیسے کہ امام مسلم رحمہ اللہ حدیث نمبر: (8) میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ : ” ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا ۔ اس کے کپڑے انتہائی سفید اور با ل انتہائی سیاہ تھے ۔ اس پر سفر کا کوئی اثر دکھائی دیتا تھا نہ ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا تھا حتی کہ وہ آ کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بیٹھ گیا اور اپنے گھٹنے آپ کے گھٹنوں سے ملا دیے ، اور اپنے دونوں ہاتھ رانوں پر رکھ دیے ، اور کہا: اے محمد-صلی اللہ علیہ و سلم – ! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ( اسلام یہ ہے کہ تم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم اس کے رسول ہیں ، تو نماز کا اہتمام کر، زکاۃ ادا کر ، رمضان کے روزے رکھ، اور اگر اللہ کے گھر تک سفر کی استطاعت ہو تو اس کا حج کر۔) اس نے کہا : آپ نے سچ فرمایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتا بھی ہے اور خود ہی تصدیق بھی کرتا ہے ۔ پھر اس نے کہا : مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا: (ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور اچھی اور بری تقدیر پر بھی ایمان لائے۔ ) اس نے کہا : آپ نے درست فرمایا ۔ پھر اس نے پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا: (یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔) اس نے کہا : آپ مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے ۔ آپ نے فرمایا: (جس سے اس (قیامت ) کے بارے میں سوال کیا جا رہا ہے ، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ ) اس نے کہا : تو مجھے اس کی علامات بتا دیجیے ۔ آپ نے فرمایا : (لونڈی اپنی مالکہ کو جنم دے اور یہ کہ تم ننگے پاؤں ، ننگے بدن، محتاج ، اور بکریاں چرانے والوں کو دیکھو کہ وہ اونچی سے اونچی عمارتیں بنانے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : پھر وہ سائل چلا گیا ، میں کچھ دیر اسی کیفیت میں رہا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے کہا : (عمر !تمہیں معلوم ہے کہ پوچھنے والا کون تھا؟) میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ جبرئیل علیہ السلام تھے ، تمہارے پاس آئے تھے ، تمہیں تمہارا دین سکھا رہے تھے ۔)
احسان کا لغوی معنی: کسی بھی کام کو بھر پور دل لگی کے ساتھ انتہائی عمدگی سے سر انجام دینا۔
جبکہ شرعی معنی اس لفظ کے استعمال کے اعتبار سے دو الگ الگ معانی رکھتا ہے:
پہلا استعمال: لفظ احسان تنہا استعمال ہو، اور اس کے ساتھ اسلام اور ایمان کا تذکرہ نہ ہو تو اس سے سارے کا سارا دین مراد ہوتا ہے جیسے کہ لفظ ایمان اور اسلام میں پہلے گزر چکا ہے۔
دوسرا استعمال: کہ لفظ احسان مذکورہ دونوں لفظوں کے ساتھ آئے یا کسی ایک کے ساتھ آئے تو پھر اس کا معنی ظاہر و باطن کو عمدہ بنانا ہو گا، نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لفظ کی ایسی تفسیر بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے علاوہ کوئی اس کی اس خوبصورت انداز میں تفسیر بیان کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو کوزے میں دریا بند کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احسان کی تفسیر میں فرمایا: (تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو کم از کم یہ احساس پیدا کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔) درجۂ احسان دین کا اعلی ترین درجہ ہے، اور اس کا مقام سب سے اعلی ہے، اسے درجے کے حاملین ہی بھلائی کے کاموں میں سبقت لے جانے والے ہیں، اور انہیں اعلی ترین درجات میں اللہ تعالی کا قرب عطا کیا جائے گا۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث جبریل میں بتلایا ہے کہ احسان کے بھی الگ الگ دو درجے ہیں:
پہلا مقام: یہ دونوں میں سے اعلی ترین مقام ہے، وہ یہ ہے کہ آپ عبادت اس تصور سے کریں کہ گویا آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں، بعض علمائے کرام اس مقام کو “مقام مشاہدہ” کا نام دیتے ہیں، یعنی بندہ اس طرح عمل کرے کہ گویا وہ خود اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے، اس طرح اس کا دل روشن ہو جاتا ہے، اس کے سامنے غیبی چیزیں مشاہداتی چیزوں جیسی ہو جاتی ہیں، چنانچہ جو شخص بھی اللہ تعالی کی عبادت اس ذہن کے ساتھ کرے کہ وہ اللہ تعالی کے بالکل قریب ہے، اور وہ اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے، یہ احساس دل میں رکھے کہ گویا وہ اللہ تعالی کے سامنے کھڑا ہے، تو اس سے اس کے دل میں خشیت، خوف، ہیبت اور اللہ تعالی کی تعظیم حاصل ہو گی۔
دوسرا مقام: اس مقام کو علمائے کرام “مقامِ اخلاص” یا “مقام مراقبہ” کا نام دیتے ہیں، اس میں یہ ہوتا ہے کہ انسان یہ بات ذہن میں لاتا ہے کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے، اور اللہ تعالی اس کے قریب ہے، چنانچہ جس وقت انسان کے ذہن میں اپنے کسی بھی عمل کے بارے میں یہ بات آ جائے ، یا اسی ذہن کے مطابق عمل کرے تو وہی حقیقت میں اللہ تعالی کے ساتھ مخلص ہے، کیونکہ انسان جب کوئی بھی کام مکمل توجہ سے کرے تو غیر اللہ کی جانب دھیان ہی نہیں جاتا، اور عمل بجا لانے کا مقصد بھی صرف اللہ تعالی کی ذات بن جاتا ۔ تو جس وقت انسان اس مقام کو پالے، تو اس کے لیے پہلے مقام کو پانا آسان ہو جاتا ہے، اسی لیے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی بیان کرتے ہوئے اس دوسرے مقام کو پہلے کے لیے زینہ قرار دیا، اور فرمایا: اگر تم اللہ تعالی کو نہیں دیکھ رہے تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالی کی بندگی کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں ہو کہ اللہ تعالی اسے دیکھ رہا ہے، اس کی خلوت و جلوت دونوں سے واقف ہے، ظاہر و باطن اس کے لیے آشکار ہیں، کوئی بھی چیز اللہ تعالی سے اوجھل نہیں ہے، تو پھر اس کے لیے پہلے مقام تک پہنچنا آسان ہے کہ ہمیشہ انسان اللہ تعالی کو اپنے قریب سمجھے، اللہ تعالی کی معیت کو محسوس کرے اور یہ تصور لائے کہ گویا وہ اللہ تعالی کی ذات کو دیکھ بھی رہا ہے ۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو اپنا فضلِ عظیم عطا فرمائے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (219 ) اور (14055 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
معارج القبول ، از الشیخ حاف الحکمی: (2 / 20 – 33، 326 – 328) المجموع الثمين از ابن عثیمین (1 / 49، 53) جامع العلوم والحكم از ابن رجب حنبلی (1/ 106)۔