جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

ایسی چیزوں کو بیچنے کا حکم جو فروخت کنندہ کی ملکیت نہیں ، نیز ایسے لین دین کو درست کرنے کے طریقے

سوال

 میں بیرون ملک رہائش پذیر ہوں اور یہاں پر مالی حالات بہت زیادہ خراب ہیں، میرے خاوند کے پاس کوئی ملازمت بھی نہیں ہے، تو میں نے اپنے خاوند کی مدد کے لیے فیصلہ کیا کہ میں اپنی خدمات انٹرنیٹ کے ذریعے پیش کرتی ہوں، لہذا اگر کوئی بہن اس ملک سے جہاں میں رہ رہی ہوں کوئی چیز منگوانا چاہے تو میں اسے وہ چیز منگوا کر دے سکتی ہوں، چنانچہ کوئی بہن جب کوئی چیز منگوانا چاہے تو میں اسے تلاش کرتی ہوں اور اس بہن کو تصویر بھیج دیتی ہوں، تو جب وہ بہن خریدنے کے لیے تیار ہو جائے تو میں اس چیز کو کارگو کروانے کے اخراجات سمیت قیمت بتلا دیتی ہوں، تو متعلقہ بہن سے رقم ٹرانسفر کروانے کا مطالبہ کرتی ہوں تا کہ میں وہ چیز خرید کر کارگو کروا سکوں، اس طرح میرے معاملات بہت اچھے چلنے لگے ، پھر ایک دن ایسا بھی آیا کہ مجھ سے ایک تاجر بہن نے کچھ چیزیں خریدنے کا مجھے کہا اور انہوں نے ہی مجھے ویب سائٹس کے لنک بھی بھیجے، تو میں نے انہیں اپنی عادت کے مطابق مکمل بل بنا کر بھیج دیا اور اس نے مجھے پیسے ارسال کر دئیے جو کہ 670 امریکی ڈالر تھے، تو میں نے وہ چیزیں خرید لیں اور پھر ان چیزوں کے میرے گھر کے ایڈریس پر پہنچنے کا انتظار کرنے لگی، یہاں مسئلہ کھڑا ہوا کہ چیز تو میں نے خرید لی لیکن میرے گھر تک نہ پہنچی، اور جب متعلقہ ویب سائٹ سے ہم نے رابطہ کیا تو کسی نے جواب ہی نہ دیا، اور جب ہم نے اس ویب سائٹ کے متعلق تلاش کیا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ تو فیک ویب سائٹ تھی یعنی ہم لٹ چکے تھے، یعنی لوگوں نے ویب سائٹس ہی اس لیے بنائی ہیں کہ لوگوں کو لوٹا جائے، لیکن جب میں نے بہن کو ساری روداد سنائی تو اس نے میری بات کا یقین ہی نہیں کیا اور مجھے جھوٹا اور چور تک کہہ ڈالا، میں نے اس کے سامنے قسمیں اٹھائیں کہ جیسے ہی میرے حالات درست ہوں گے میں اپنے خاوند سے پیسے مانگ کر تمہیں تمہاری رقم لوٹا دوں گی، لیکن اب اس بات کو 1 سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور میں اتنی رقم جمع نہیں کر پائی، تو کیا مجھ پر لازم ہے کہ میں اسے رقم واپس کروں ؟ واضح رہے کہ پیسے تو ٹھگ ویب سائٹ لے کر نکل گئی ہے اور متعلقہ بہن مجھ سے رقم کا مطالبہ کر رہی ہے، تو اس صورت حال میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ شیخ مکرم ! اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ جس لین دین کے بارے میں پوچھ رہی ہیں یہ شرعی طور پر ٹھیک نہیں ہے؛ کیونکہ آپ ایسی چیز فروخت کرتی ہیں جو آپ کی ملکیت میں ہی نہیں ہے اور یہ شرعی احکامات کی واضح مخالفت ہے، پھر آپ ایسی غیر ملکیتی چیز فروخت کرتی ہیں جس کی ضمانت دینا اور مشتری تک اسے پہنچانا آپ کے اختیار میں ہی نہیں ہے، اس طرح یہ بیع غرر کے ساتھ ساتھ قمار اور جوا بازی بھی ہے، اس طرح لین دین کرنے سے لڑائی جھگڑے اور تنازعات پیدا ہوتے ہیں؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ جس ریٹ پر آپ نے چیز فروخت کی ہے اچانک اس کا ریٹ بڑھ جائے [اس طرح آپ کو اپنی جیب سے رقم لگانی پڑے گی] یا ایسا بھی ہو سکتا ہے جب آپ لینے جائیں تو متعلقہ چیز دستیاب ہی نہ ہو! اور یہاں ایک اور غیر شرعی چیز واضح ہو گئی کہ متعلقہ چیز ایک طرف رہی خود فروخت کنندہ کا ہی سرے سے وجود نہیں ہے! اس لیے کسی کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی ایسی چیز فروخت کرے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے، بلکہ کسی ایسی چیز کو بھی فروخت کرنا جائز نہیں ہے جس کی مکمل تفصیلات بیان ہو چکی ہوں لیکن وہ فروخت کنندہ کے پاس نہ ہو، صرف بیع سلم میں اس کی استثنائی صورت ہے۔

چنانچہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "یا رسول اللہ! میرے پاس ایک شخص آ کر ایسی چیز کا مطالبہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، کیا میں [اس سے بات طے کر کے] مارکیٹ سے اس کے لیے خرید لوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم وہ فروخت ہی مت کرو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔) " اس حدیث کو ترمذی: ( 1232 ) ، ابو داود: (3503 )، نسائی: ( 4613 ) ، اور ابن ماجہ: ( 2187 )نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح ترمذی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو) اس حدیث کو ترمذی: ( 1234 ) نے روایت کر کے اسے حسن اور صحیح قرار دیا ہے، نیز اسے ابو داود : ( 3504 ) اور نسائی: ( 4611 )نے بھی روایت کیا ہے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"دونوں احادیث میں متفقہ طور پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ جو چیز قبضے اور ملکیت میں نہیں ہے اس کی بیع مت کرو، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ الفاظ محفوظ ہیں، ایسی چیز کو فروخت کرنے سے غرر لازم آتا ہے؛ کیونکہ جب کوئی چیز ملکیت میں نہیں ہے لیکن گاہک کو فروخت کر دی ہے اب اگر مارکیٹ سے لینے کے لیے جاتا ہے تو اب ممکن ہے کہ چیز مل جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ نہ ملے، اور یہ غرر ہے جو کہ قمار کے مشابہ ہے، اس لیے ایسی بیع سے منع کر دیا گیا ۔" ختم شد
" زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 5 / 808 )

آپ رحمہ اللہ آگے چل کر معدوم چیز کی بیع کی اقسام لکھتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں کہ:
"معدوم چیز کا کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ دستیاب ہو سکے گی یا نہیں؟ نہ ہی فروخت کنندہ کو 100 فیصد اعتماد ہوتا ہے کہ اسے مل جائے گی، بلکہ خریدار تو خطرے میں ہی رہتا ہے۔ تو شریعت نے جس وجہ سے ممانعت کی ہے اس لیے نہیں کہ مبیع موجود نہیں ہے، بلکہ اس لیے کہ اس میں غرر یعنی غیر یقینی صورت حال ہے، اور اسی غیر یقینی صورتحال کی ایک قسم سے ممانعت سیدنا حکیم بن حزام اور ابن عمرو رضی اللہ عنہم کی حدیث میں ہے ؛ کیونکہ جب فروخت کنندہ کوئی ایسی چیز فروخت کر دے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس چیز کو خریدار کے سپرد کر سکتا ہے تو یہ جا کر اس چیز کو تلاش کرے گا اور مشتری کو پہنچائے گا: یہ ساری صورت جوے والی ہے حالانکہ انہیں ایسا لین دین کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور نہ ہی دونوں کی مصلحت کا اس سے کوئی تعلق تھا۔" ختم شد
" زاد المعاد في هدي خير العباد " ( 5 / 810 )

بلکہ اگر آپ کا ان ویب سائٹس کے ذریعے خریداری کرنے کا جواز شرعی طور پر مل بھی جائے تو تب بھی آپ اس سامان کو آگے اس وقت تک فروخت نہیں کر سکتے جب تک آپ اسے اپنے قبضے میں نہ لے لیں، یعنی جب تک سامان حقیقی طور پر آپ کے ہاتھ میں نہ آ جائے اور -اس کے منقولہ ہونے کی صورت میں- آپ اسے اپنے اسٹور وغیرہ میں نہ رکھ لیں اس وقت تک اسے آگے فروخت نہیں کر سکتے، تو یہ ایک اور وجہ ہے جس کے باعث آپ کا یہ لین دین کرنا غیر شرعی ہو جاتا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (39761 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

اسی طرح سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: " میں نے بازار میں زیتون کا تیل خریدا ۔ جب میں نے اسے وصول کر لیا تو مجھے ایک آدمی ملا اور اس نے مجھے عمدہ منافع کی پیشکش کی ۔ میں نے چاہا کہ ( اسے قبول کرتے ہوئے ) اس کے ہاتھ پر ہاتھ ماروں ۔ تو ایک شخص نے میرے پیچھے سے میرا بازو پکڑ لیا ۔ میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے ۔ انہوں نے کہا : جہاں تم نے اسے خریدا ہے اسی جگہ مت بیچو حتیٰ کہ اپنی گھر لے جاؤ ۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خریداری کی جگہ ہی پر اس مال کو بیچنے سے منع فرمایا ہے حتیٰ کہ تاجر اسے اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں ۔
اس حدیث کو ابو داود: (3499) نے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے "صحیح ابو داود" میں حسن قرار دیا ہے۔

الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ مذکورہ تینوں احادیث ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:
"مذکور احادیث اور اس مفہوم کی دیگر احادیث کے بعد متلاشی حق کے لیے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے لیے کوئی بھی ایسی چیز فروخت کرنا جائز نہیں ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو، فروخت کرنے کے بعد بازار جائے اور خریداری کر کے گاہک کو پہنچائے۔ بلکہ واجب یہ ہے کہ اسے فروخت کرنے سے پہلے خود خریدے اور اپنے قبضے میں لے لے، اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ مال خرید کر اسی دکاندار کے سامنے آگے فروخت کرنے لگ جاتے ہیں یعنی اس چیز کو اپنی دکان وغیرہ میں منتقل نہیں کرتے، یا مارکیٹ میں نہیں لاتے تو یہ بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کی مخالفت ہے، اس طرح شریعت مطہرہ کی تعلیمات کو لوگ کھلواڑ بنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے ایسے نقصانات اور سنگین نتائج سامنے آتے ہیں کہ جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو شریعت پر پابندی کرنے اور شریعت کی مخالفت کرنے سے محفوظ فرمائے۔" ختم شد
" مجموع فتاوى الشيخ ابن باز ( 19 / 52 ، 53 )

دوم:
آپ کے طریقہ کاروبار کو شریعت کے مطابق بنانے کا طریقہ کار:

1-آپ خریدار کے سامنے قابل فروخت چیز پیش کریں اور اس کی تفصیلات اتنی بتلا دیں کہ اس کے بعد کسی قسم کی کوئی بات مخفی نہ رہے اور بعد میں جھگڑے کا باعث نہ بنے، آپ خریدار سے قیمت طے کر لیں کہ اس چیز کو اپنی ملکیت میں لینے کے بعد آپ خریدار کو اتنے میں فروخت کریں گی، پھر خریدار بھی اسی قیمت میں اس چیز کو خریدنے کا وعدہ کر لے، لیکن دونوں پر اس خریداری کو مکمل کرنا لازم نہ ہو، یعنی خریدار خریدنے کا پابند نہ ہو اور آپ اسے فروخت کرنے کی پابند نہ ہوں، بلکہ طرفین دونوں ہی اس معاملے کو مکمل کرنے یا نہ کرنے میں مکمل آزاد ہوں، پھر آپ جب متعلقہ چیز کو اپنی ملکیت میں لے آئیں، اور آپ خریدار سے بیع طے کر لیں تو اب یہ معاہدہ فائنل ہو گیا ہے، اور اب اس کے احکام معروف بیع والے ہوں گے اور اسے "بیع المواعدہ" یعنی خریداری کے وعدے والی بیع کہتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (126452) کا جواب ملاحظہ کریں، یہاں پر اس بیع کے متعلق تفصیلات ذکر کی گئی ہیں۔

2-دوسرا طریقہ یہ ہے کہ: آپ کسی بھی شخص کے لیے اس کی مطلوبہ چیز مقررہ کمیشن کے عوض خریدیں، یا پھر قیمت کے حساب سے متعین تناسب میں کمیشن کے عوض خرید کر دیں، مثلاً: آپ لوگوں کو آپ چیزیں دکھائیں اور ہر خریداری پر مثال کے طور پر 10 ریال اپنی محنت کے طور پر وصول کریں، یا پھر جتنا بھی بل بنے ٹوٹل بل کا 2 فیصد کمیشن مثال کے طور پر آپ ان سے وصول کریں، تو یہ رقم آپ کی محنت کا معاوضہ ہو گی۔

تو جس طرح آپ خریدار کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی چیز کمیشن کے عوض خرید سکتی ہیں اسی طرح فروخت کنندہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کوئی چیز فروخت بھی کر سکتی ہیں۔

باقی رہا خاتون کی طرف سے آپ کو ادا کی گئی رقم کا معاملہ تو یہ آپ پر لازم ہے کہ آپ وہ ساری رقم واپس کریں؛ کیونکہ وہ رقم اسی خاتون کی ہے، اور آپ اپنے مال کے لیے ویب سائٹ والوں کے خلاف پولیس کے ذریعے کار روائی کریں یا کوئی اور قانونی طریقہ وغیرہ اپنائیں، وہ خاتون آپ سے اپنے مال کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے چاہے آپ کو یہ رقم اس فیک ویب سائٹ کی جانب سے وصول ہو یا نہ ہو، اس رقم کے ملنے یا نہ ملنے سے اس خاتون کے حق پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ اس عورت کا حق آپ پر ہر حالت میں لازم ہے، تاہم یہ ممکن ہے کہ وہ خاتون آپ کے حالات کو دیکھ کر مزید کچھ مہلت دے اور آپ کی آسودگی تک انتظار کر لے ، یا وہ خود ہی آپ کو اس سے بری الذمہ کر دے تو یہ اس کے لیے بہت بہتر ہو گا، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ:
وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
 ترجمہ: اور اگر مقروض شخص تنگ دست ہو تو اسے آسودگی تک مہلت دو، اور اگر تم صدقہ کرتے ہوئے معاف کر دو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ [البقرۃ: 280]

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اپنے خاوند کا دست و بازو بننے پر اجر سے نوازے ، اور یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو اچھا اور بہترین رزق عطا فرمائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب