الحمد للہ.
دوران غسل یا وضو جسم سے گرنے والے پانی میں کھڑے ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ واجب غسل یا وضو کی حالت میں گرنے والا پانی پاک ہوتا ہے۔
بلکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ گرنے والا پانی نجس تھا، مثلاً: حمام کی چھت میں سوراخ تھا اور وہاں سے نجس پانی گرنے لگا، اور وہ نجاست اس کے جسم پر گری تو محض جسم پر نجاست گرنے سے وضو نہیں ٹوٹے گا؛ کیونکہ وضو تو انسان کے جسم سے خارج ہونے والی نجاست سے ٹوٹتا ہے، نہ کہ جسم پر گرنے والی نجاست سے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (12801 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر مکمل وضو یا غسل کرنے کے بعد جسم کے کسی حصے پر میل لگ گئی ہے یا نجاست بھی لگ گئی ہو تو صرف اس نجاست کو دھو لیا جائے گا۔
جیسے کہ مسلم: (317) میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے غسل جنابت کے واسطے پانی رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں ہتھیلیوں کو دھویا، پھر اپنا ہاتھ پانی میں ڈالا ، اور پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنا بایاں ہاتھ زمین پر رگڑا اور پھر نماز جیسا وضو کیا، اور پھر اپنے سر پر تین چلو ہتھیلی بھر کر ڈالے، پھر اپنا سارا جسم دھویا، اور پھر اپنی اس جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، اور پھر میں نے آپ کو تولیہ تھمایا تو آپ نے استعمال کیے بغیر واپس کر دیا۔)
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غسل میں قدموں کو کسی اور جگہ دھونے کا مطلب یہ ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد کسی اور جگہ اپنے دونوں قدم دھوئے۔
مصنف کی اس بات سے محسوس ہوتا ہے کہ : یہ طریقہ کار مطلق طور پر مسنون ہے، حتی کہ ایسی صورت میں بھی جب غسل خانہ اس طرح صاف ستھرا ہو جیسے ہمارے ہاں ہوتے ہیں۔ جبکہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کسی اور جگہ پر پاؤں دھونا اس وقت ہے جب جگہ تبدیل کرنے کی ضرورت بھی ہو، مثلاً؛ غسل خانہ کچی مٹی کا ہو؛ کیونکہ ایسی صورت میں پاؤں دھونے پر دوبارہ مٹی میں بھر جائیں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے غسل کے بعد پاؤں نہیں دھوئے۔" ختم شد
" الشرح الممتع " (1/361)
واللہ اعلم