الحمد للہ.
اجمالی طور پر علاج کروانا شرعی عمل ہے؛ کیونکہ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی نے بیماری کے ساتھ دوا بھی نازل فرمائی ہے، اور ہر بیماری کی دوا بھی پیدا کی ہے، اس لیے تم دوائی لو اور حرام چیزوں کے ذریعے علاج مت کرو) سنن ابو داود: (3376)
اسی طرح سیدنا اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ کی روایت بھی ہے کہ: کچھ خانہ بدوش لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: کیا ہم اپنا علاج کریں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تم علاج کرو؛ کیونکہ اللہ تعالی نے کوئی بیماری نہیں بنائی جس کا علاج نہ بنایا ہو، صرف ایک بیماری ایسی ہے جس کی دوا نہیں ہے۔) لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ ! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بڑھاپا) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ نے (4/383 ) حدیث نمبر: (1961) پر روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے، نیز یہ روایت صحیح الجامع : (2930) میں ہے۔
حنفی اور مالکی جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ علاج کروانا جائز ہے، جبکہ تمام شافعی اور حنبلی فقہائے کرام میں سے القاضی، ابن عقیل اور ابن الجوزی اس کے مستحب ہونے کے قائل ہیں، ان کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمان ہے: (یقیناً اللہ تعالی نے بیماری کے ساتھ دوا بھی نازل فرمائی ہے، اور ہر بیماری کی دوا بھی پیدا کی ہے، اس لیے تم دوائی لو اور حرام چیزوں کے ذریعے علاج مت کرو) اس کے علاوہ اور روایات بھی اس موقف کی دلیل ہیں کہ جن میں علاج کروانے کا حکم دیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا حجامہ کروانا اور علاج کروانا ، علاج معالجے کے شرعی ہونے کی دلیل ہے۔ تاہم شافعی علمائے کرام کے ہاں علاج کروانا تب مستحب ہے جب علاج حتمی طور پر مفید نہ ہو بلکہ مفید ہونے کا گمان ہو، لیکن اگر علاج کے مفید ہونے کا حتمی امکان ہو تو پھر ان کے ہاں علاج کروانا واجب ہے، مثلاً: زخم پر پٹی باندھنے سے حتمی طور پر فائدے کا امکان ہوتا ہے تو زخم پر پٹی باندھنا واجب ہے۔ عصرِ حاضر میں اس سے ملتا جلتا مسئلہ کچھ حالات میں خون کی منتقلی ہے۔
مزید کے لیے آپ حاشية ابن عابدين: 5/215 ، 249 . فتح القدير کا تتمہ الھدایہ: 8/134 ، علامہ دوانی کی الفواكه : 2/440 ، روضة الطالبين :2/96 ، كشاف القناع :2/76 ،الإنصاف : 2/463 ، الآداب الشرعية : 2/359 ، اور حاشية الجمل : 2/134 کا مطالعہ کریں۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح احادیث میں علاج کروانے کا حکم موجود ہے، نیز یہ کہ علاج کروانا توکل کے منافی نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے بھوک لگنے پر کھانا، پیاس لگنے پر پینا، گرمی لگنے پر ٹھنڈک لینا، اور سردی لگنے پر گرمائش لینا منافی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقی توحید تبھی مکمل ہو گی جب اللہ تعالی کے قدراً اور شرعاً مقرر کردہ اسباب کو اپنائیں گے ، ان اسباب کو نا اپنانا اصل میں توکل کے منافی ہے، اسی طرح ان اسباب کو نہ اپنانا دین و حکمت کے بھی منافی ہے، اسباب نہ اپنانے کی وجہ سے کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے توکل مزید بڑھتا ہے یہ نظریہ عقیدہ توحید کو کمزور کرتا ہے؛ کیونکہ اسباب ترک کرنا ایسے توکل کے منافی ہے جس میں دل کا صرف اللہ تعالی پر بھروسا ہوتا ہے کہ دین و دنیا کی تمام مفید چیزیں اللہ تعالی پر اعتماد کے ذریعے حاصل ہوتی ہیں اور دین و دنیا کی تمام مضر چیزیں اللہ تعالی پر ہی توکل کے ذریعے دور ہوتی ہیں، اس بھروسے کے ہوتے ہوئے اسباب کو اپنانا نہایت ضروری ہے، وگرنہ یہ حکمت و شریعت کے بالکل منافی ہو گا، لہذا اپنے عجز کو توکل نہ کہے، اور توکل کو عجز نہ کہے۔" ختم شد
"زاد المعاد " 4/15 ، مزید کے لیے دیکھیں: الموسوعة الفقهية : 11/116
سوال کے مذکورہ جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ: علاج کروانا اگرچہ علمائے کرام کے ہاں واجب نہیں ہے، لیکن جب علاج کے مفید ہونے کے بارے میں قطعی رائے ہو کہ علاج سے فائدہ ہو گا تو بعض کے ہاں علاج کروانا واجب ہے۔ اب چونکہ سوال میں مذکور حالت میں علاج کے مفید ہونے کے بارے میں قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ، اور مریض کو بھی علاج کروانے سے تکلیف ہوتی ہے تو پھر کلی طور پر علاج نہ کروانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی مریض کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ تعالی پر بھر پور بھروسا رکھے، اللہ تعالی سے گڑگڑا کر دعائیں کریں؛ کیونکہ آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اسے چاہیے کہ اپنے آپ پر قرآن کریم کی تلاوت کے ذریعے دم کرے، مثلاً: سورت الفاتحہ، سورت الفلق، اور سورت الناس پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرے، تو یہ سورتیں اس کے لیے نفسیاتی اور جسمانی طور پر مفید ہوں گی، اس کے ساتھ ساتھ کثرت سے تلاوت کرنے کی وجہ سے اسے اجر بھی زیادہ ملے گا، اور یقین رکھے کہ اللہ تعالی ہی شفا دینے والا ہے، اس کے علاوہ کوئی شفا دینے والا نہیں ہے۔
واللہ اعلم