الحمد للہ.
عمومی طور پر علمائے کرام کا موقف یہ ہے کہ شفاف جرابوں پر مسح نہیں ہو گا چنانچہ مسح کی اجازت موٹی اور گہری جرابوں کے ساتھ مشروط ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (228222) کا جواب ملاحظہ کریں۔
چنانچہ اگر سوال میں مذکور جراب بالکل باریک ہے اور جراب کے نیچے سے جلد بھی نظر آتی ہے تو راجح موقف یہی ہے کہ اس پر مسح نہیں کیا جائے گا۔
لیکن اگر مریض کے لئے ایسی جراب کو پہننا ضروری ہو، پھر ہر وضو پر ان جرابوں کو اتارنا بھی مشقت طلب کام ہو تو مریض ان جرابوں کو پہننے سے پہلے وضو کر لے اور پھر اس باریک جراب کے اوپر کوئی موٹی جراب بھی پہن لے، تو جب بھی وضو کی ضرورت پڑے تو اوپر والی جراب پر مسح کر لے، ایسے میں مسح کی سہولت اوپر والی موٹی جراب کے اتارنے یا مسح کی مدت ختم ہونے تک حاصل ہو گی۔
اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو اور طبی جراب کو اتارنے سے نقصان کا خدشہ ہو یا شفا یابی میں تاخیر کا باعث بنے تو پھر اس جراب کا حکم زخم پر بندھی ہوئی پٹی والا ہے، یعنی وضو کے دوران جتنا حصہ دھویا جاتا ہے اس تمام حصے پر اوپر نیچے ہر جانب مسح کرے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (192736) کا جواب ملاحظہ کریں۔
تو اگر آپ کی اہلیہ جرابیں رات کے وقت اتارے گی تو لازمی بات ہے کہ نماز فجر کے لئے وضو کرے گی، تو وضو کے بعد یہ طبی جراب پہن لے اور پھر اس کے اوپر کوئی موٹی جراب بھی پہن لے، اس طرح بعد میں وضو کرتے ہوئے اوپر والی جراب پر مسح کرے، اس طرح اوپر والی جراب کا اعتبار ہو گا، نیچے والی شفاف جراب کا اعتبار نہیں ہوگا۔ چنانچہ جب رات ہو تو دونوں جرابیں اتار دے، اور جب فجر کی نماز کے لئے وضو کرنا ہو تو دوبارہ سے یہی عمل دہرائے۔
میں نے یہ سوال اپنے شیخ عبد الرحمن براک حفظہ اللہ کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا: اس جراب میں دو چیزیں جمع ہیں:
ایک یہ کہ یہ جراب زخم پر بندھی ہوئی پٹی کی طرح ہے ؛ کیونکہ اس جراب کو ضرورت کے تحت پہننا ضروری ہے۔ دوسری جانب یہ موزے سے بھی مشابہت رکھتی ہے ۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ خاتون اپنے پاؤں کے اتنے حصے پر مسح کرے جتنے حصے کو وضو میں دھونا ضروری ہے، نیز ان جرابوں پر مسح کرنے کی مدت اور وضو کے بعد پہننے کا معاملہ موزوں کی طرح ہو گا۔
واللہ اعلم