جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

حيض كے احكام

سوال

عورت كو حيض آنے كے نتيجہ ميں كيا احكام مرتب ہوتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حيض كے احكام بيس سے بھى زيادہ ہيں، ان ميں سے اہم احكام يہ ہيں:

اول: نماز:

حائضہ عورت كے ليے نفلى يا فرضى نماز كى ادائيگى حرام ہے، اور اگر وہ ادا بھى كرے تو صحيح نہيں ہوگى، اسى طرح نماز اس پر فرض نہيں، ليكن اگر وہ نماز كے وقت ميں سے ايك ركعت كى ادائيگى كى مقدار پالے تو اس وقت اس پر نماز فرض ہوگى، چاہے اس نے اول وقت پا ليا ہو يا آخر وقت.

اول وقت كى مثال:

ايك عورت كو غروب شمس كے ايك ركعت كى مقدار كے بعد حيض آيا تو اس پر مغرب كى نماز فرض ہوگى، اور بعد ميں وہ اس كى قضاء كرےگى كيونكہ اس نے نماز كے وقت ميں سے حيض آنے سے قبل ايك ركعت كى مقدار پالى تھى.

آخرى وقت كى مثال:

ايك عورت طلوع شمس سے ايك ركعت كى مقدار قبل طہر آيا اور وہ پاك صاف ہو گى تو اس پر نماز فجر واجب ہوگى اور وہ غسل كر كے اس نماز كو ادا كرےگى كيونكہ اس نے فجر كى نماز سے ايك ركعت كا وقت پا ليا تھا.

ليكن اگر حائضہ عورت كو اتنا وقت ملے جس ميں ايك ركعت كى ادائيگى نہيں ہو سكتى، مثلا پہلى مثال ميں اسے غروب آفتاب كے ايك لحظہ بعدحيض آئے، اور دوسرى مثال ميں طلوع شمس سے ايك لحظہ قبل طہر آئے تو اس پر نماز واجب نہيں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پالى تو اس نے نماز پالى "

متفق عليہ.

اس حديث كا مفہوم يہ ہے كہ: جس نے ايك ركعت نہ پائى اس نے نماز كو نہيں پايا.

رہا مثلا ذكر و اذكار اور تسبيحات اور كھانے وغيرہ كى دعائيں پڑھنا، اور حديث اور فقہ، اور دعا كرنا اور آمين كہنا، قرآن مجيد كى تلاوت سننا، يہ سب كچھ حائضہ عورت كے ليے حرام نہيں.

صحيحين اور دوسرى احاديث كى كتابوں ميں مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى گود ميں ٹيك لگا قرآن مجيد كيا كرتے تھے، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا حالت حيض ميں ہوتى تھيں.

صحيحين ميں ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" نوجوان بالغ اور كنوارى اور حيض والى عورتيں بھى نكليں ـ يعنى نماز عيدين كے ليے ـ اور انہيں خير اور مؤمنوں كى دعاء ميں شريك ہونا چاہيے، اور وہ نماز والى جگہ سے عليحدہ رہيں "

اور حائضہ عورت كا خود قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كے متعلق يہ ہے كہ اگر تو صرف آنكھ سے ديكھ كر اور دل كے ساتھ تدبر كرتے ہوئے ليكن زبان سے ادائيگى نہ ہو تواس ميں كوئى حرج نہيں، مثلا قرآن مجيد كسى رحل پر ركھ كر اسے ديكھ اور دل ميں پڑھے، تو " شرح المھذب " ميں امام نووى كہتے ہيں كہ بلا خلاف يہ جائز ہے.

ليكن اگر زبان سے ادائيگى كے ساتھ قرآت كرنا جمہور علماء كرام كے ہاں ممنوع اور ناجائز ہے.

امام بخارى، ابن جرير، ابن منذر كہتے ہيں كہ: يہ جائز ہے، اور امام مالك اور شافعى رحمہما اللہ سے قديم قول بيان كيا جاتا ہے جو فتح البارى ميں بيان ہوا ہے، اور امام بخارى نے ابراہيم النخعى سے تعليقا بيان كيا ہے كہ: آيت كى تلاوت كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ " الفتاوى " ميں كہتے ہيں:

قرآن و سنت ميں اسے منع كرنے كى كوئى دليل نہيں، اور يہ حديث:

" حائضہ اور جنبى قرآن نہ پڑھيں " محدثين كے ہاں بالاتفاق ضعيف ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتوں كو حيض آيا كرتا تھا، اگر نماز كى طرح قرآت بھى ان كے ليے حرام ہوتى ہو تو اسے بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى امت كے ليے بيان كر ديتے، اور امہات المؤمنين كو اس كا علم ہوتا، اور لوگوں ميں اسے نقل كيا جاتا.

اس ليے جب كسى نے بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نہى نقل نہيں كى تو يہ علم ہوتے ہوئے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس سے منع نہيں فرمايا اسے حرام كرنا جائز نہيں، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حيض والى عورتوں كى كثرت كے باوجود منع نہيں فرمايا تو يہ حرام نہيں. انتہى.

اہل علم كے نزاع كا علم ہو جانے كے بعد يہ كہنا چاہيے كہ:

حائضہ عورت كے ليے اولى اور بہتر يہى ہے كہ وہ قرآن مجيد بغير ضرورت زبان كے ساتھ نہ پڑھے، مثلا اگر كوئى مدرسہ اور معلمہ ہے اور اسے تعليم حاصل كرنے والوں كى پڑھانے كى ضرورت ہے، يا امتحانات ہوں اور معلمہ كو امتحان كى بنا پر پڑھنے كى ضرورت پيش آئے تو جائز ہے.

دوسرا حكم: روزے:

حائضہ عورت كے ليے نفلى اور فرضى روزہ ركھنا حرام ہے، اور اگر ركھے تو اس كا روزہ صحيح نہيں، ليكن فرضى روزہ كى قضاء ميں حيض كے بعد روزے ركھنا ہونگے، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" يہ ـ يعنى حيض ـ ہميں بھى آيا كرتا تھا، تو ہميں روزوں كى قضاء كا حكم ديا جاتا، اور نماز كى قضاء كا حكم نہيں ديا جاتا تھا "

متفق عليہ.

اور اگر روزے كى حالت ميں حيض آ جائے تو اس كا روزہ باطل ہو جائيگا، چاہے مغرب سے كچھ منٹ قبل ہى آئے، اور اگر يہ روزہ فرضى ہو تو اس پر اس دن كے روزہ كى قضاء ہوگى.

ليكن اگر مغرب سے قبل حيض آنا محسوس ہو ليكن آئے غروب شمس كے بعد تو اس كا روزہ مكمل ہے، اور صحيح قول كے مطابق اس كا روزہ باطل نہيں ہوگا، كيونكہ پيٹ كے اندر والے خون كا كوئى حكم نہيں، اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مرد كى طرح عورت كے احتلام كے متعلق دريافت كيا گيا كہ آيا اس پر بھى غسل ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا:

" جى ہاں، جب وہ عورت پانى ديكھے "

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم كو منى ديكھنے پر معلق كيا ہے، نہ كہ منتقل ہونے پر، تو حيض بھى اسى طرح ہے، اس كے احكام حيض ديكھنے پر لاگو ہونگے نہ كہ منتقل ہونے پر.

اور اگر حالت حيض ميں طلوع فجر ہو جائے تو اس دن كا روزہ صحيح نہيں ہوگا چاہے، چاہے طلوع فجر كے ايك منٹ بعد ہى طہر آئے.

اور اگر طلوع فجر سے قبل طہر آ جائے اور اس نے روزہ ركھ ليا تو اس كا روزہ صحيح ہے، چاہے ابھى اس نے غسل فجر كے بعد ہى كيا ہو، اس جنبى شخص كى طرح جس نے روزے كى نيت جنبى حالت ميں ہى كى اور غسل طلوع فجر كے بعد كر ليا تو اس كا روزہ صحيح ہے.

كيونكہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم جماع كى بنا پر جنبى حالت ميں صبح كرتے اور پھر رمضان كا روزے ركھتے تھے "

متفق عليہ.

تيسرا حكم:

بيت اللہ كا طواف كرنا:

حيض والى عورت كے ليے بيت اللہ كا نفلى يا فرضى طواف كرنا حرام ہے اور اگر كرے گى تو اس كا يہ طواف صحيح نہيں ہوگا، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كوحيض آنے كى صورت ميں فرمايا تھا:

" جس طرح دوسرے حاجى كرتے ہيں تم بھى وہى عمل كرو، ليكن پاك صاف ہونے سے قبل بيت اللہ كا طواف نہيں كرنا "

اور اس كے علاوہ باقى اعمال مثلا صفا مروہ كى سعى، وقوف عرفات، مزدلفہ اور منى ميں رات بسر كرنا، جمرات كو كنكرياں مارنا وغيرہ حج اورعمرہ كے دوسرے اعمال اس پر حرام نہيں ہيں.

اس بنا پر اگر كسى عورت نے پاكى كى حالت ميں طواف كيا اور پھر طواف كے فورا بعد حيض شروع ہو گيا، يا پھر سعى كے دوران حيض آ گيا تو اسميں كوئى حرج نہيں.

چوتھا حكم:

طواف وداع كا ساقط ہونا:

اگر عورت نے حج اور عمرہ كے سارے اعمال مكمل كر ليے ہوں، اور پھر اپنے ملك جانے سے قبل اسے حيض آجائے اور جانے تك حيض ختم نہ ہو تو وہ طواف وداع كے بغير ہى چلى جائے.

اس كى دليل ابن عباس كى درج ذيل حديث ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لوگوں كو حكم ديا كہ:

" ان كا آخرى كام بيت اللہ كا طواف ہو "

ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے حائضہ عورت سے اس كى تخفيف كر دى "

متفق عليہ.

ليكن حج اور عمرہ كا طواف حائضہ عورت سے ساقط نہيں ہوگا، بلكہ طہر آنے كے بعد اسے طواف كرنا ہوگا.

پانچواں حكم:

مسجد ميں ٹھرنا:

حائضہ عورت كے ليے مسجد ميں حتى كہ عيدگاہ ميں نماز والى جگہ پر ٹھرنا حرام ہے، كيونكہ ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتےہوئے سنا:

" نوجوان اوربالغ اور كنوارى اور حيض والى عورتيں بھى عيدگاہ جائيں "

اور اس حديث ميں ہے:

" حائضہ عورتيں نماز والى جگہ سے عليحدہ اور دور رہيں "

متفق عليہ.

چھٹا حكم:

جماع:

حائضہ عورت كے خاون پر حالت حيض ميں بيوى سے جماع كرنا حرام ہے اور حائضہ عورت كے ليے حرام ہے كہ وہ خاوند كو ايسا كرنے دے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور يہ لوگ آپ سے حيض كے متعلق دريافت كرتے ہيں، كہہ ديجئے يہ گندگى ہے اس ليے حالت حيض ميں عورتوں سے عليحدہ اور دور رہو، اور ان كے پاك صاف ہونے سے قبل ان كے قريب نہ جاؤ .

المحيض سے مراد وقت كا وقت اور جگہ يعنى شرمگاہ ہے.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جماع كے علاوہ باقى سب كچھ كرو "

صحيح مسلم.

اور اس ليے بھى كہ حائضہ عورت سے فرج ميں جماع كرنے كى حرمت پر سب مسلمانوں كا اجماع ہے.

جس شخص كى شہوت زيادہ ہو اس كے ليے بيوى كے ساتھ بوس و كنار اور معانقہ اور مباشرت كرنا جائز ہے، ليكن يہ سب كچھ شرمگاہ سے اوپر والے حصہ ميں ہوگا، اور بہتر يہى ہے كہ وہ گھٹنے سے ليكر ناف تك كوئى كپڑا وغيرہ باندھ لے تا كہ حرام كام سے اجتناب ہو.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

ميں حيض كى حالت ميں ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مجھے تہہ بند باندھنے كا حكم ديتے تو ميرے ساتھ آپ مباشرت كرتے "

متفق عليہ.

ساتواں حكم:

طلاق:

خاوند كے ليے بيوى كو حالت حيض ميں طلاق دينى حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دو تو انہيں ان كى عدت كى ابتدا ميں طلاق دو .

يعنى ايسى حالت ميں طلاق دو كہ طلاق كى عدت معلوم ہو سكے، اور يہ اس وقت ہى ہو سكتا ہے جب انہيں حمل يا طہر جس ميں جماع نہ كيا ہو طلاق دى جائے، كيونكہ جب حالت حيض ميں طلاق دى جائيگى تو اس كى عدت كى ابتدا نہيں ہوئى، اس ليے كہ جس حيض ميں اسے طلاق ہوئى ہے وہ عدت ميں شمار نہيں ہوگا، اور جب طہر ميں جماع كے بعد طلاق دى جائے گى تو بھى اس كى معلوم عدت شروع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ علم نہيں كہ آيا اس جماع سے حمل ہوا ہے تا كہ اس كى عدت حمل شمار ہو، يا حمل نہيں ہوا كہ اس كى عدت حيض شمار ہو.

اس ليے جب عدت كى قسم كا يقين نہيں ہوا تو اس كے ليے واضح ہونے سے قبل طلاق دينى حرام ہے.

چنانچہ مندرجہ بالا آيت كى بنا پر حائضہ عورت كو حالت حيض ميں طلاق دينا حرام ہے، اور اس ليے بھى كہ صحيحين وغيرہ ميں حديث مروى ہے كہ:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حالت حيض ميں طلاق دے دى تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كى خبر دى تو رسول صلى اللہ عليہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمانے لگے:

" اسے كہو كہ وہ بيوى سے رجوع كر لے، اور اسے طہر تك روك كر ركھے، اور پھر حيض آئے پھر پاك صاف ہو، پھر اگر چاہے تو اسے اپنے پاس ركھے اور چاہے تو اسے جماع سے قبل طلاق دے، يہى وہ عدت ہے جس كا اللہ تعالى نے حكم ديا كہ ہے عورتوں كو اس ميں طلاق دى جائے "

اس ليے اگر كوئى شخص اپنى بيوى كو حالت حيض ميں طلاق دے گا تو وہ گنہگار ہے، اسے اس عمل سے توبہ كرنى چاہيے، اور وہ اسے اپنى عصمت ميں واپس لائے تا كہ اسے شرعى اور اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے موافق طلاق دے، اس ليے اس سے رجوع كے بعد اپنے پاس ركھے حتى كہ وہ اس حيض سے پاك ہو جائے جس ميں طلاق دى تھى، پھر دوبارہ حيض آئے تو طہر آنے كے بعد چاہے تو اپنے پاس ركھے اور چاہے جماع كرنے سے قبل طلاق دے، حيض ميں دى گئى طلاق شمار ہوگى.

حيض ميں طلاق كى حرمت سے تين قسم كے مسائل مستثنى ہيں:

اول:

اگر طلاق بيوى سے خلوت سے قبل اور اس سے جماع كرنے سے قبل دى جائے تو حالت حيض ميں طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اس پر اس حالت ميں عدت نہيں ہے، تو اس طرح اسے طلاق دينا اللہ تعالى كے فرمان:

تو انہيں ان كى عدت كے ليے طلاق دو .

كے مخالف نہيں.

دوم:

اگر حمل كى حالت ميں حيض ہو.

سوم:

اگر طلاق عوض ہو، تو حالت حيض ميں طلاق دينے ميں كوئى حرج نہيں.

اور حالت حيض ميں نكاح كرنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ اصل ميں حلت ہے، اور اس كى ممانعت كى كوئى دليل نہيں، ليكن حالت حيض ميں عورت كى رخصتى كے متعلق يہ ديكھا جائيگا كہ اگر تو مرد كے متعلق يہ علم ہو كہ وہ اس سے جماع نہيں كرےگا تو ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ صبر نہيں كر سكتا تو اس كى رخصتى طہر كے بعد كرنى چاہيے تا كہ كہيں ممنوع اور حرام كا ارتكاب نہ ہو.

آٹھواں حكم:

طلاق كى معتبر عدت ـ يعنى حيض ميں ـ

اگر مرد اپنى بيوى كو جماع يا خلوت كے بعد طلاق دے تو اگر اسے حيض آتا ہو اور حاملہ نہ ہو تو عورت كے ليے مكمل تين حيض عدت گزارنا واجب ہے كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور طلاق والى عورتيں تين حيض انتظار كريں .

يعنى تين حيض.

اور اگر حاملہ ہو تو اس كى عدت وضع حمل ہے، چاہے حمل كى عدت زيادہ ہو يا كم، اس ليے كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور حمل واليوں كى عدت يہ ہے كہ وہ اپنا حمل وضع كر ليں.

اور اگر عورت كو بڑھاپے يا رحم كے آپريشن كى بنا پر حيض نہ آتا ہو يا پھر وہ عورت جسے حيض آنے كى اميد ہى نہ رہى ہو تو اس كى عدت تين ماہ ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تمہارى وہ عورتيں جو حيض سے نااميد ہو چكى ہوں، اگر تم شبہ ميں پڑ جاؤ، اور وہ جنہيں حيض نہيں آيا ان كى عدت تين ماہ ہے .

اور اگر وہ عورتيں حيض والياں تو ہيں ليكن كسى معلوم سبب مثلا بيمارى، يا رضاعت وغيرہ كى بنا پر ان كا حيض بند ہے تو وہ عدت ميں ہى رہے گى حتى كہ حيض آ جائے، چاہے يہ مدت كتنى بھى لمبى كيوں نہ ہو جائے، اور اگر سبب ختم ہو جائے اور پھر بھى حيض نہ آئے مثلا وہ بيمارى سے شفاياب ہو جائے يا پھر رضاعت ختم ہو جائے ليكن حيض نہ آئے تو وہ سبب ختم ہونے كے بعد ايك برس عدت گزارےگى، صحيح يہى قول يہى ہے جو شرعى قواعد و اصول پر منطبق ہوتا ہے.

كيونكہ جب سبب زائل ہو جائے اور حيض نہ آئے تو وہ اس كى طرح ہو گى جس كا حيض كسى غير معلوم سبب كى بنا پر رك گيا ہو، اور جب كسى غير معلوم سبب كى بنا پر حيض رك جائے تو وہ عورت ايك سال عدت گزارے گى نو ماہ تو حمل اور تين ماہ عدت كے.

ليكن اگر طلاق عقد نكاح اور دخول اور خلوت سے قبل ہوئى ہو تو پھر مطلقا عدت نہيں ہے، نہ تو حيض كى اور نہ ہى كوئى اور كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مؤمن عورتوں سے نكاح كرو اور پھر انہيں چھونے سے قبل ہى طلاق دے دو تو پھر تمہارے ليے ان پر كوئى عدت نہيں جو شمار كرو .

نواں حكم:

برات رحم:

يعنى رحم سے خالى اور برى ہونا، يہ اس وقت ہو گا جب بھى برات رحم كى ضرورت پيش آئے، اس كے كئى ايك مسائل ہيں:

جب كوئى شخص فوت ہو اور اپنے پيچھے ايسى عورت چھوڑے جس كا حمل اس كا وارث ہو ( يعنى موت كے وقت حمل واضح نہ تھا اور عدت گزرنے تك واضح نہ ہوا اور نہ ہى حيض آيا ) اور وہ عورت خاوند والى ہو ( يعنى اس نے خاوند فوت ہونے كے بعد اور شادى كر لى ) تو اس كے خاوند اس عورت سے اس وقت تك تعلقات قائم كرنے اور ہم بسترى كرنى جائز نہيں حتى كہ حيض نہ آ جائے، يا پھر حمل واضح نہ ہو جائے، اگر تو اس كا حمل واضح ہو جائے تو ہم اس كے وارث ہونے كا حكم لگائيں گے، كہ جس كا وارث بنا جا رہا ہے اس كى موت كے وقت يہ حمل موجود تھا، اور اگر حيض آ جائے تو ہم اس كے وارث نہ بننے كا حكم لگائيں گے، كہ حيض كى بنا پر برات رحم ہوا ہے.

دسواں حكم:

غسل واجب ہونا:

حائضہ عورت جب حيض سے پاك صاف ہو ہو اور اسے طہر آ جائے تو اسے سارے بدن كى طہارت كے ليے غسل كرنا فرض ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:

" لہذا جب تمہيں حيض آئے تو نماز ترك كردو، اور جب حيض ختم ہو جائے تو پھر غسل كر كے نماز ادا كرو "

صحيح بخارى.

غسل ميں كم از كم واجب يہ ہے كہ سارے جسم پر پانى بہايا جائے حتى كہ بالوں كے نيچے تك پہنچے، اور افضل يہ ہے كہ غسل حديث ميں بيان كردہ طريقہ كے مطابق كيا جائے.

اسماء بنت شكل رضى اللہ تعالى عنہا نے جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حيض كے غسل كے متعلق دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سے كوئى ايك عورت اپنى بيرى اور پانى ليكر اچھى طرح وضوء كرے اور پھر اپنے سر پر پانى بہائے اور اچھى طرح ملے حتى كہ پانى بالوں كى جڑوں تك پہنچ جائے، پھر اپنے اوپر پانى بہائے، اور پھر خوشبو ميں لتھڑى ہوئى روئى يا كپڑا ليكر اس سے پاكى اور طہارت حاصل كرے.

اسماء رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں: اس سے كيسے طہارت حاصل كرے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: سبحان اللہ!

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے اسماء كو كہا: تم خون والى جگہ پر ركھو "

صحيح مسلم.

حائضہ عورت كے ليے اپنے بالوں كى ميڈياں كھولنا ضرورى نہيں، ليكن اگر پورى قوت سے بنائى گئى ہوں اور خدشہ ہو كہ پانى جڑوں تك نہيں پہنچےگا تو پھركھول لے.

صحيح مسلم ميں ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہےكہ انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا:

" ميرے سال كے بال بہت زيادہ شديد ہيں كيا ميں غسل جنابت كے ليے بال كھولا كروں ؟

اور ايك روايت ميں ہے كہ:

كيا حيض اور غسل جنابت كے ليے كھولا كروں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نہيں، بلكہ اتنا ہى كافى ہے كہ تم اپنے سر پر تين چلو پانى ڈال لو اور پھر سارے بدن پر پانى بہاؤ تو اس طرح تم پاك ہو جاؤ گى "

اور جب عورت نماز كے وقت كے دوران پاك ہو جائے اور اسے طہر آئے تو اسے غسل كرنے ميں جلدى كرنى چاہيے تا كہ نماز بروقت ادا كر سكے، اور اگر وہ سفر ميں ہو اور اس كے پاس پانى نہ ہو، يا پانى تو ہو ليكن اس كے استعمال سے نقصان كا انديشہ ہو، يا وہ مريض ہو اور پانى نقصان ديتا ہو تو وہ غسل كے بدلے تيمم كر كے نماز ادا كر لے، اور جب مانع زائل ہو تو غسل كرے.

كيونكہ بعض عورتيں نماز كے وقت كے دوران ہى پاك ہو جاتى ہيں، اور انہيں طہر آ جاتا ہے ليكن وہ غسل كرنے ميں دير كرتى ہيں حتى كہ دوسرى نماز كا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور وہ كہتى ہے كہ اتنے وقت ميں اچھى طرح اور مكمل صفائى اور طہارت نہيں ہو سكتى.

ليكن اس كى يہ بات حجت نہيں، اور نہ ہى عذر شمار ہوتا ہے، كيونكہ اس كے ممكن ہے كہ وہ غسل ميں اختصار سے كام ليتے ہوئے صرف واجب پر عمل كرے، اور نماز بروقت ادا كر لے، پھر اگر اسے زيادہ وقت ملے تو اچھى طرح طہارت اور غسل كرتى پھرے " انتہى.

عورت كو حيض آنے كى صورت ميں مرتب ہونے والے يہ چند ايك اہم احكام تھے جو ہم نے مندرجہ بالا سطور ميں بيان كيے ہيں.

ماخوذ از: رسالۃ فى الدماء الطبيعيۃ للنساء. تاليف شيخ ابن عثيمين

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب