الحمد للہ.
اول:
سودى لين دين كے پيپر وغيرہ لكھنے، اور سودى لين دين كا حساب ركھنے كا كام كرنا، يا اس طرح كا كام جو سودى معاملات ميں معاون ہو جائز نہيں ہے؛ كيونكہ اس ميں برائى اور گناہ اور ظلم و زيادتى ميں معاونت ہوتى ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہو اور برائى و گناہ اور ظلم و زيادتى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو، اور اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو يقينا اللہ تعالى سخت سزا دينے والا ہے المآئدۃ ( 2 ).
اس ليے اس ملازمت كو ترك كرنا واجب اور ضرورى ہے، اور صرف مباح اور جائز كام پر بھى انحصار كرنا چاہيے، اور جو شخص بھى كوئى چيز اللہ تعالى كے ليے ترك كرتا ہے اللہ تعالى اسے اس سے بھى بہتر اور اچھى چيز عطا فرماتا ہے.
آپ سوال نمبر ( 59864 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ اس ميں سود كى معاونت كرنے كى حرمت بيان كى گئى ہے، چاہے وہ سود كى تفصيل اور اس كے امتعلقات كا پيپر لكھ كر ہى كى جائے.
دوم:
اور جو شخص بھى اللہ تعالى كے ہاں كسى حرام كام سے توبہ كر ليتا ہے اور اس نے اس حرام كام كى بنا پر مال كمايا ہو مثلا: گانے بجانے كى اجرت، رشوت، نجومى كا پيشہ اختيار كر كے، اور جھوٹى گواہى ديكر، اور سود لكھنے كى اجرت اور اس طرح كے دوسرے حرام كاموں كى اجرت، اگر تو اس نے ايسى كمائى سے حاصل ہونے والا مال خرچ كر ديا ہو اور اس كے پاس كچھ نہيں بچا تو اس پر كچھ نہيں، ليكن اگر مال اس كے پاس موجود ہو تو اس كے ليے اس مال كو نيكى و بھلائى كے كاموں ميں خرچ كر كے اس سے چھٹكارا حاصل كرنا ضرورى ہے، ہاں يہ ہے كہ اگر وہ محتاج اور ضرورتمند ہو تو وہ اس مال سے بقدر ضرروت رقم لے سكتا ہے، اور باقى مال سے چھٹكارا حاصل كرلے، اور اسے اس مال سے حج كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى پاك ہے اور وہ پاكيزہ چيز ہى قبول فرماتا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں:
" جب اسے كوئى غير حرام معاوضہ دے اور وہ عوض كو اپنے قبضہ ميں بھى كر لے مثلا زانى عورت، يا گانے بجانے والا، اور شراب فروخت كرنے والا، اور جھوٹى گواہى دينے والا، يا اس طرح كا كوئى اور شخص پھر وہ توبہ كر لے اور وہ معاوضہ اس كے پاس ہى ہو تو ايك گروہ كا قول ہے كہ:
وہ اسے اس كے مالك كو واپس كر دے؛ اس ليے كہ وہ بعينہ اس كا مال ہے اور اس شخص نے اسے شارع كے حكم سے اپنے قبضہ ميں نہيں كيا، اور نہ ہى اس كے مقابل مالك نے كوئى مباح اور جائز فائدہ اٹھايا ہے.
اور ايك گروہ كا قول يہ ہے كہ: بلكہ اسے صدق دل كے ساتھ اس سے توبہ كرنا ہوگى، اور وہ يہ مال اس شخص كو واپس نہ كرے جس سے اس نے ليا تھا، اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے اور ان دونوں اقوال ميں صحيح بھى يہى ہے... " انتہى.
ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 389 ).
ابن قيم رحمہ اللہ نے اس مسئلہ كو " زاد المعاد " ميں شرح و بسط كے ساتھ بيان كيا اور يہ فيصلہ كيا ہے كہ اس مال سے چھٹكارا پانے اور توبہ كى تكميل اس طرح ہو گى كہ:
" وہ اس مال كو صدقہ كر دے، اور اگر وہ اس مال اور رقم كا خود محتاج ہو تو وہ بقدر ضرورت ركھ سكتا ہے اور باقى رقم كو صدقہ كر دے " انتہى.
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 778 ).
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر يہ فاحشہ عورت اور يہ شراب فروخت كرنے والا توبہ كرلے اور يہ فقراء ہيں تو بقدر ضرورت اس مال سے انہيں دينا جائز ہے، اور اگر وہ تجارت كرنے يا كوئى ہنر والا كام كر سكتا ہو مثلا اون كا دھاگہ بنا سكتا ہو، يا بنائى كر سكتا ہو، تو اسے اس كام كے ليے راس المال ديا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 308 ).
اس مسئلہ كى تفصيل ڈاكٹر عبد اللہ بن محمد السعيدى كى كتاب " الربا فى المعاملات المصرفيۃ المعاصرۃ " ( 2 / 779 - 874 ) ميں ديكھى جا سكتى ہے.
سوم:
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى مندرجہ بالا كلام سے يہ حاصل ہوتا ہے كہ: حرام كمائى سے توبہ كرنے والا شخص اگر تو محتاج ہے تو وہ اس مال سے بقدر ضرورت لے سكتا ہے، اور وہ اس ميں سے كچھ رقم جو تجارت يا صنعت كے ليے راس المال ہو لے سكتا ہے، اور پھر جو رقم اس كى رقم سے زيادہ ہو وہ اسے صدقہ كر دے.
چہارم:
اس ليے كہ آپ كے كام ميں كچھ تو مباح اور جائز ہے، اور كچھ حرام تو آپ اس ميں حرام كا اندازہ لگائيں كہ اس ميں حرام كا تناسب كيا ہے، اور اس تناسب كے حساب سے اپنے پاس موجود مال سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں؛ اور اگر آپ كے ليے اندازہ لگانا مشكل ہو تو پھر آپ نصف مال سے چھٹكارا اور خلاصى حاصل كر ليں.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" .... اور اگر مال حرام اور حلال دونوں مخلوط ہوں اور اس ميں ہر ايك كا اندازے كا علم بھى نہ ہو تو اسے دو حصے كر لے " انتہى.
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 307 ).
واللہ اعلم .