سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بالغ نوجوان لڑكيوں كے ترانے اور نظميں و اشعار پڑھنا

99630

تاریخ اشاعت : 20-12-2007

مشاہدات : 8498

سوال

كيا چودہ برس اور اس سے زائد عمر كى لڑكى كے ليے بچوں كے ليے نظميں اور ترانے پڑھنے جائز ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بالغ لڑكى وغيرہ كے ليے چھوٹے بچوں كے ترانے اور نغمے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ عادات ميں اصل اباحت ہے، نہ تو اس ميں كوئى نہى وارد ہے، بلكہ اس ميں مصلحت و منفعت پائى جاتى ہے كہ ان نظموں اور ترانوں كا بچے كى ديكھ بھال اور تربيت پر بہت زيادہ اثر ہوتا ہے، كہ بچے كو وہ محبت و رحمدلى پيدا كرتے ہيں جس كى بچے كو ضرورت ہوتى ہے اسى طرح ان نظم اور ترانے كے كلمات كا بھى اسكى شخصيت اور نفس ميں ايك بہت اچھا اثر پرتا ہے.

ان كے ذريعہ بچے كے ذہن ميں شجاعت و بہادرى، اور خود اعتمادى كو جاگزيں كيا جا سكتا ہے، اور اس كے دل ميں اميد اور نجات اور كام كرنے پر متوجہ ہونا، اور صلاح و خير كى خصلتيں پيدا كى جا سكتى ہيں، ليكن يہ سب كچھ اس وقت ہو گا جب عورت بچوں كے ليے تيار كردہ نظموں اور ترانوں ميں اچھے كلمات اختيار كرے.

اصل ميں اس طرح كے اشعار گانے ميں كوئى خرابى نہيں، اور جب عورت اپنى ظاہرى زينت ايسے بچے كے ليے ظاہر كر سكتى ہے جسے عورت كے ستر والى اشياء كا علم نہيں، اور وہ اس كا ادراك نہيں ركھتا، تو پھر اس كا اپنى آواز ميں بچوں كے ليے نظميں اور ترانے پڑھنا بالاولى جائز ہے.

اور فقھاء كرام كے بيان ميں اس كے قريب ہى كچھ كلام ملتى ہے:

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مباح غناء كو شمار كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اور اس ميں عورت كا اپنى گود ميں موجود بچے كو چپ كرانے اور بہلانے كے ليے گانا بھى شامل ہے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 538 ).

اور شافعى فقھاء ميں سے اذرعى كا كہنا ہے:

" اور كسى مشكل اور بھارى كام كرنے كى كوشش كے وقت جو عادت بن چكى ہے: جيسا كہ عرب بدؤوں كا اونٹ ہانكتے وقت حدى خوانى كرنا اور اشعار پڑھنا، اور عورتوں كا اپنے چھوٹے بچوں كو بہلانے كے ليے گانا تو اس كے جواز ميں كوئى شك نہيں، بلكہ جب وہ چلنے اور خير و بھلائى ميں اور چستى پيدا كرے تو يہ مندوب ہو گا، مثلا حج اور جھاد ميں جاتے ہوئے حدى خوانى كرنا اور اشعار پڑھ كر اونٹ بھگانا، اور جو بعض صحابہ سے وارد ہے اسے بھى اس پر محمول كيا جائيگا " انتہى

ماخوذ از: تحفۃ المحتاج ( 10 / 219 ).

ليكن يہاں بعض شروط اور اصول و ضوابط كا خيال كرنا ہو گا جو مندرجہ بالا بيان ميں بيان ہوئے ہيں:

1 - يہ اشعار اور نظميں اور ترانے گانے بجانے كے آلات موسيقى سے خالى ہوں، كيونكہ يہ سب آلات حرام ہيں، اور اسے سننا اور اس موسيقى والے نغمات پر بچوں كى تربيت كرنا اور گانا جائز نہيں.

موسيقى كى حرمت كے متعلق تفصيل آپ درج ذيل سوالات كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں:

سوال نمبر ( 5000 ) اور ( 5011 ) اور ( 43736 ) اور ( 96219 ).

2 - اور كسى بھى بالغ اور نوجوان لڑكى كے ليے غير محرم مردوں كى موجودگى ميں گانے گانا، يا بچوں كے ليے اشعار اور نظميں اور ترانے پڑھنا جائز نہيں، تو پھر اسے مختلف قسم كے ايجاد كردہ آلات پر ريكارڈ كرانا اور اسے عامۃ الناس ميں نشر كرنا اور پھيلانا كيسے جائز ہوگا، اس ليے كہ اگر بچوں كے ليے عورت كى آواز ميں نظميں وغيرہ سننا جائز ہيں، تو غير محرم مردوں كے ليے اسے سننا جائز نہيں، اور نہ ہى كسى عورت كو اس كے متعلق تساہل سے كام لينا چاہيے، اس ليے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے سب سے بہتر اور عفت و عصمت كى مالك بيويوں جو كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيوياں ہيں انہيں كلام ميں نرم لہجہ اختيار كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا ہے:

اے نبى كى بيويو تم عام عورتوں كى طرح نہيں، اگر تم پرہيزگارى اختيار كرو تو كلام ميں نرم لہجہ اختيار مت كرو، كيونكہ جس كے دل ميں بيمارى اور روگ ہے وہ طمع كريگا، ہاں قاعدہ كے مطابق اچھى اور بہتر بات كرو الاحزاب ( 32 ).

اور جب ہم يہ ديكھتے اور ياد كرتے ہيں كہ كلام ميں نرمى اختيار كرنے كى يہ ممانعت اس دور ميں تھى جو رسولوں كے بعد سب سے بہتر ترين انسانوں كا دور تھا، يعنى صحابہ كرام كے دور ميں، تو ہمارے اس دور ميں اس كا حكم كيا ہو گا جس ميں فتنہ و فساد اور انحراف بہت زيادہ بڑھ چكا ہے.

امام قرطبى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" يعنى كلام ميں نرمى اختيار نہ كريں، اللہ تعالى نے انہيں حكم ديا ہے كہ ان كى بات ميں سختى ہو، اور كلام ميں فيصلہ كن ہو، اور اس طرح كلام نہ كى جائے كہ اس ميں نرمى ہونے كى وجہ سے دل ميں تعلق پيدا ہو جائے، جيسا كہ عرب كى عورتوں كا مردوں كے ساتھ كلام كرنے ميں نرمى اختيار كرنے كا حال تھا، جس طرح غلط قسم كى عورتيں لہك لہك كر كلام كرتى ہيں.

تو اللہ سبحانہ و تعالى نے انہيں اس طرح كى كلام كرنے سے منع كر ديا.

قولہ تعالى: اور تم قاعدہ كے مطابق اچھى بات كرو .

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہتے ہيں:

اللہ تعالى نے انہيں حكم ديا ہے كہ وہ نيكى كا حكم ديں، اور برائى سے منع كريں، اور عورت اجنبى مردوں سے كلام كرتے وقت سختى اختيار كريں، اور اسى طرح سسرالى رشتہ دار مردوں سے كلام ميں بھى عورت كو سخت لہجہ ركھنا چاہيے اور آواز بھى بلند نہ ہو، كيونكہ عورت كو آواز پست ركھنے كا حكم ديا گيا ہے.

تو اجمالى طور پر قول معروف يہ ہوا: وہ صحيح بات جو شريعت كے مخالف نہ ہو، اور نہ ہى نفس اس كا انكار كرتے ہوں " انتہى.

ديكھيں: الجامع لاحكام القرآن ( 14 / 177 ).

اور آپ سوال نمبر ( 11563 ) كے جواب كا بھى مطالعہ ضرور كريں.

تو اس طرح يہ ثابت ہوتا ہے كہ آج كل كچھ ٹى چينل جو گانے اور ترانے نوجوان لڑكيوں كى آواز ميں اس خيال سے نشر كر رہے ہيں كہ يہ بچوں كے ليے ہيں، يہ سب كچھ غلط ہے صحيح نہيں، كيونكہ اسطرح كى اشياء پيش كرنا اسے سننے اور اس كى خوبصورت سريلى آواز سے فتنہ كى دعوت دينا ہے، اور پھر اس ميں ان اصول و ضوابط سے بھى نكلنا ہے جو اوپر بيان ہوئے ہيں، اس ليے جو لوگ بھى اس طرح كے كام كر رہے ہيں، ان كے ليے اس طرح كى نظميں وغيرہ نشر كرنا، يا فروخت كرنا، يا كسى بالغ لڑكى كى آواز ميں ريكارڈ شدہ كيسٹ جارى كرنا جائز نہيں ـ اگر تو يہ اشعار اور نظم كے كلمات اچھے اور صحيح ہوں ـ كيونكہ اس ميں اللہ تعالى كے اس حكم كى مخالفت ہے جس ميں عورت كو اپنى آواز نرم اختيار نہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، اور گانے اور سر لگانے سے بڑى نرمى اور كيا ہو سكتى ہے كيونكہ يہ تو آواز كو لہكانا، اور سر لگانا اور كلمات كو باريك كرنا ہے اور ہر سننے والے كے دل پر اثر كرنے كے ليے يہى كافى ہے.

اور غالبا يہى تساہل اور سستى بہت خطرناك ثابت ہو سكتى ہے اور پھر بالغ مردوں كے ليے بھى گانے ميں منتقل ہو گا، اور پھر يہى نہيں بلكہ ان كى موجودگى ميں بھى گايا جائيگا !!

يہاں ہم ايك اور چيز كى طرف بھى اشارہ كرنا چاہتے ہيں كہ ہم نے جو يہ بيان كيا ہے كہ بچوں كے سامنے اس كے ستر ميں كچھ تخفيف ہے تو يہ صرف اس بچے كے سامنے ہے جسے ابھى عورت كے متعلق كسى چيز كا علم نہيں، اور وہ عورت كى فتنہ والى اشياء ميں تميز نہيں كر سكتا، اور نہ ہى وہ ان اشياء كى طرف متنبہ ہوتا ہے، جيسا كہ اللہ تعالى نے ان بچوں كا وصف بيان كرتے ہوئے فرمايا ہے:

يا وہ بچے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں النور ( 31 ).

شيخ ابن سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" يعنى: وہ بچے جو ابھى تميز كى عمر كو نہيں پہنچے، ان كا اجنبى عورتوں كو ديكھنا جائز ہے، اور اللہ تعالى نے يہاں اس كى علت يہ بيان فرمائى ہے كہ وہ بچے عورتوں كے پردہ والى اشياء پر مطلع نہيں، يعنى انہيں ان اشياء كا علم نہ ہو، اور نہ ہى ان ميں ابھى كوئى شہوت پائى جاتى ہو جو اس كى دليل ہے كہ جو بچہ ان اشياء ميں تميز كر سكتا ہو اس سے عورت پردہ كريگى، كيونكہ وہ بچہ عورت كى پردہ والى اشياء كو جانتا ہے اور اس پر وہ اشياء ظاہر ہيں " انتہى.

ديكھيں: تفسير السعدى ( 566 ).

اور " احكام القرآن " ميں ابن العربى كہتے ہيں:

" چہرہ اور ہاتھ كے علاوہ باقى پردہ كے وجوب ميں اختلاف ہے اور اس ميں دو قول ہيں:

پہلا قول: لازم نہيں.

دوسرا قول: لازم ہے، كيونكہ وہ بچہ ہو سكتا ہے اسے شہوت آئے، اور وہ عورت بھى اسے چاہے؛ اور اگر وہ عمر بلوغت كے قريب ہو تو وہ بالغ كے حكم ميں ہے، اور اس سے پردہ كرنا واجب ہو گا " انتہى.

ديكھيں: احكام القرآن ( 3 / 1375 ).

اس طرح كے باتيں كرنے والے كمزور قسم كے عذر اور دلائل پيش كرتے ہيں:

كچھ لوگ تو يہ كہتے ہيں كہ: كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں عيد كے روز چھوٹى بچياں اشعار نہيں گا رہى تھيں ؟

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں گانے كى اجازت دى اور انہيں كرتے رہنے ديا ؟

تو اس كا جواب يہ ہے كہ:

حق تو يہى ہے كہ حق پيروى كى جائے، اور ہمارى شريعت ميں نوجوان اور بالغ لڑكيوں كو اپنى زيب و زينت اور پرفتن اشياء لوگوں كے سامنے ظاہر كرنے كى ممانعت كى گئى ہے، اور اس ميں سريلى اور باريك اور نرم آواز بھى شامل ہوتى ہے.

اور آپ نے جو حديث ذكر كى ہے وہ حديث صحيح ہے، اور اسے امام بخارى اور امام مسلم نے صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے، وہ بيان كرتى ہيں:

" ميرے پاس ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو گھر ميں ميرے پاس انصار كى دو بچياں وہ اشعار گا رہى تھيں، جو انصار نے يوم بعاث كے متعلق آپس ميں كہے تھے، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ وہ دونوں بچياں گانے والى نہيں تھيں، تو ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے گھر ميں شيطان كى آواز؟ اور يہ عيد كا روز تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اے ابو بكر ہر قوم كا عيد كا تہوار ہوتا ہے، اور ہمارى يہ عيد ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 987 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 892 )

مگر يہ ہے كہ علماء كرام اس كى شرح ميں كہتے ہيں، يہ دونوں بچياں ابھى چھوٹى اور نابالغ تہيں، تو يہ مكلف نہيں تھيں.

قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جاريہ عورتوں اسى طرح ہے جس طرح مردوں ميں غلام يعنى بچہ ہے اور ان دونوں كو يہ نام اس وقت ديا جاتا ہے جب وہ ابھى بلوغت سے كم عمر ميں ہوں " انتہى.

ديكھيں: المفھم لما اشكل من صحيح مسلم ( 8 / 10 ).

اور علامہ ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كا گانے كو شيطانى آواز اور مزمار الشيطان قرار دينے كا اعتراف كيا ہے اس كا انكار نہيں كيا، اور انہيں وہ اشعار پڑھتے رہنے ديا كيونكہ وہ دونوں بچياں مكلف نہ تھيں، اور وہ ان اشعار كو گار رہى تھيں جو اعراب نے يوم بعاث ميں بہادرى و شجاعت اور لڑائى كے متعلق كہے تھے، اور دن عيد كا تھا.

تو شيطانى گروہ نے اس ميں وسعت پيدا كر كے اسے خوبصورت اور اجنبى عورت كى آواز تك پہنچا ديا، يا پھر اس ميں اس بچے كو بھى شامل كر ليا جو ابھى نابالغ ہے اور اس كى آواز فتنہ ساز ہے، اور اس كى شكل بھى فتنہ ساز، اور وہ اشعار بھى وہ گاتے ہيں جس ميں فسق و فجور اور زنا اور شراب نوشى كى دعوت دے، اور اس كے ساتھ آلات موسيقى بھى استعمال كيے جاتے ہيں جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى ايك احاديث ميں حرام كيے ہيں.

اور پھر اسى پر بس نہيں بلكہ اس ميں تالى بجانا اور رقص بھى ہوتا ہے، اور يہ وہ غلط اور برى شكل اور ہئيت ہے جو كسى بھى شريعت ميں صحيح نہيں اسے كسى نے بھى حلال نہيں كيا، چہ جائيكہ اہل علم اور ايمان اسے حلال كہيں، اور وہ اس ميں ان نابالغ اور غير مكلف بچيوں كے اشعار پڑھنے كو دليل بنائيں جو انہوں نے شجاعت و بہادرى كے اشعار عيد كے روز پڑھے تھے، اس ميں نا تو كوئى بانسرى تھى، اور نہ ہى دف، نہ تو كوئى رقص و ناچ تھا اور نہ ہى تالى و بھنگڑا.

تو اس طرح يہ لوگ ايك صريح اور واضح اور محكم اس متشابہ كے ساتھ ترك كر رہے ہيں، اور ہر باطل قسم كے شخص كى حالت يہى ہوتى ہے، جى ہاں ہم اس طرح كى چيز كو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر ميں تھى ہم اسے نہ تو حرام كرتے ہيں، اور نہ ہى اس كا انكار كرتے ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ وہ بعنيہ اسى طريقہ پر ہو، ـ بلكہ ہم تو اسے حرام كہتے ہيں ـ بلكہ سب اہل علم بھى اسے حرام كہتے ہيں ـ جو اس كے مخالف محفل سماع ہو " انتہى.

ديكھيں: اغاثۃ اللھفان من مصائد الشيطان ( 1 / 257 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" فى نفسہ عورت كى آواز كا پردہ نہيں، اس كا سننا حرام نہيں، ليكن حرام اس وقت ہو گى جب اس كى آواز ميں نرمى اور لہك ہو، تو خاوند كے علاوہ يہ آواز باقى سب پر حرام ہے، اس طريقہ پر وہ صرف اپنے خاوند سے بات كر سكتى ہے، باقى مردوں كے ليے اس كا سننا جائز نہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے نبى كى بيويو تم عام عورتوں كى طرح نہيں، اگر تم اللہ كا تقوى اختيار كرو تو اپنى كلام ميں نرم لہجہ اختيار مت كرو، تو جس كے دل ميں روگ ہے وہ طمع كريگا، ہاہ قاعدہ اور اصول كے مطابق اچھى بات كرو الاحزاب ( 32 ). انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 202 ).

اور اگر فضائى چينلوں پر ان نظموں اور ترانوں كى ضرورت باقى رہى تو اس كے ليے نوجوان لڑكيوں كى آواز ميں نظموں اور ترانوں كى بجائے چھوٹى بچوں كى آواز ميں نشر كر كے اس سے مستغنى ہوا جا سكتا ہے، وہ بچے آپس ميں بيٹھ كر ايك دوسرے كے سامنے نظميں پڑھيں، تو ان كى خوبصورت آواز لے لى جائے جو عورتوں كے ترانوں اور نظموں كے قائم مقام ہونگے، تو اس طرح مقصد بھى حاصل ہو جائيگا، اور ان شاء اللہ ممانعت بھى ختم ہو جائيگى.

اور خلاصہ يہ ہوا كہ:

نوجوان اور بالغ لڑكى كا تين شروط كے ساتھ بچوں كے ليے نظميں اور ترانے پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں:

1 - يہ كہ گائے گئے كلمات اور ترانے مباح اور جائز كلمات پر مشتمل ہوں، اور اس ميں خير و بھلائى كى باتيں ہوں.

2 - اس ميں كسى بھى قسم كى موسيقى اور آلات ساز استعمال نہ كيے گئے ہوں.

3 - اور يہ غير محرم مردوں كى موجودگى ميں نہ ہو، اور نہ ہى انہيں فضائى چينل وغيرہ كے ذريعہ سرعام سب كے ليے نشر كيا جائے.

بلوغت كى حد اور عمر كے متعلق تفصيل معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 21246 ) اور ( 70425 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب