اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت

سوال

اس سلسلہ ميں كيا حكم ہے كہ ميں جب بيمارى ہوں تو كچھ آرام كر لوں، مثال كے طور پر درد شقيقہ يا دوسرى عصبى مشكلات و سكتات كے وقت، جيسا كہ ڈاكٹر كہتا ہے مجھے آرام كى ضرورت ہے، ليكن ميرا خاوند اسے تسليم نہيں كرتا كہ مجھے آرام نہيں كرنے ديتا، ( ہمارے بچے بھى ہيں ) حتى كہ ميرا خاوند يہ تسليم ہى نہيں كرتا كہ مجھے كوئى بيمارى اور صحت كى پريشانى لاحق ہو سكتى ہے كيونكہ ميں جوان ہوں اور وہ اس پر مطمئن ہے كہ ميرا ان مشكلات ميں پڑنا محال ہے برائے مہربانى مجھے بتايا جائے كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شريعت مطہرہ ميں نكاح كے عظيم مقاصد ميں سب سے بڑا اور عظيم مقصد خاوند اور بيوى كے مابين محبت و مودت پيدا كرنا ہے، اسى اساس و بنياد پر ازدواجى زندگى كى ابتدا ہونى چاہيے اور سارى زندگى يہى محبت و مودت پائى جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں يہ بھى شامل ہے كہ اس اللہ نے تمہارے ليے تمہارے نفسوں ميں سے ہى تمہارى بيوياں پيدا فرمائيں تا كہ تم اس كى طرف سكون و آرام پاؤ، اور اس نے تمہارے مابين محبت و مودت بنائى الروم ( 21 ).

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" المودۃ: يہ محبت كا نام ہے، اور " الرحمۃ " يہ نرمى و رحمدلى كو كہا جاتا ہے، كيونكہ آدمى عورت كو اپنے پاس يا تو اس سے محبت كى بنا پر ركھتا ہے، يا پھر اس سے نرمى و رحمدلى كے ليے كہ اس سے اس كى اولاد ہو گى ".

ہمارى عزيز بہن ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ سے محبت و مودت كہيں غائب نہ ہو جائے، جس كا اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے مابين پايا جانا مندرجہ بالا آيت ميں بيان كيا ہے.

آپ ذرا امہات المومنين اور صحابہ كرام كى بيويوں كے حالات كے بارہ ميں غور و فكر كريں خاص كر خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ بسر كيا ہوا دور ياد كريں، اور اپنے خاندان اور گھرانے كو سعادت مند اور خوش ركھنے كى كوشش كريں ان شاء اللہ آپ اس كا اثر ضرور پائيں گى.

دلوں كو موہ لينے كا سب سے بڑا سبب ہشاش بشاش چہرہ اور نرم و اچھى بات ہے، جيسا كہ بعض صالحين سے مروى ہے كہ:

" نيكي تو بڑى ہى آسان ہے؛ ہشاش بشاش چہرہ اور نرم و اچھا قول "

لہذا آپ كے ليے اپنے خاوند كے ساتھ يہى نيكى كافى ہے تا كہ وہ آپ كا قيدى بن جائے، اور آپ اس كے دل كو حاصل كر سكيں، اور اپنے ليے اس كے دل ميں محبت و مودت پيدا كر سكيں.

بلكہ اس سب كچھ سے قبل اور اس سے بڑھ كر تو ہمارے پروردگار جل جلالہ كا فرمان ہے:

اور نيكى و برائى برائى نہيں ہو سكتى، آپ برائى كو بھلائى سے دور كريں، تو وہ جس كے اور آپ كے درميان عداوت و دشمنى ہے وہ آپ كا دلى دوست بن جائيگا

اور يہ چيز تو انہيں ہى نصيب ہوتى ہے جو صبر كرنے والے ہيں، اور اسے سوائے بڑے نصيبے والوں كے كوئى اور نہيں پا سكتا فصلت ( 34 ـ 35 ).

شيخ سعدى رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں رقمطراز ہيں:

" يعنى اللہ سبحانہ و تعالى كى رضا و خوشنودى كے ليے نيكى اور بھلائى كے كام اور اللہ كى اطاعت كرنا اور اللہ كى معصيت و نافرمانى اور گناہ كرنا جس سے اللہ ناراض ہوتا برابر نہيں ہو سكتا.

اور نہ ہى مخلوق كے ساتھ اچھا سلوك كرنا اور مخلوق كے ساتھ برا سلوك كرنا برابر ہو سكتا ہے، نہ تو ذاتى طور پر اور نہ ہى صفاتى طور پر اور نہ ہى اس كے بدلے ميں:

فرمان بارى تعالى ہے:

احسان كا بدلہ احسان كے علاوہ كچھ نہيں.

پھر اللہ سبحانہ و تعالى نے خاص احسان كا حكم ديا ہے جس كے ليے بہت بڑا موقع ہے وہ يہ كہ جس نے آپ كے ساتھ برا سلوك كيا اس كے ساتھ آپ احسان و اچھائى كريں.

فرمان بارى تعالى ہے:

آپ برائى كو اچھائى كے ساتھ دور كريں .

يعنى جب مخلوق ميں سے كوئى آپ كے ساتھ برا سلوك كرے خاص كر جس كا آپ پر بہت بڑا حق ہو مثلا عزيز و اقارب اور رشتہ دار اور دوست و احباب وغيرہ كوئى غلط بات كہے يا برا فعل كرے تو آپ اس كے مقابلہ ميں اس كے ساتھ احسان اور اچھا سلوك كريں.

اگر وہ آپ سے قطع تعلقى كرتا ہے تو آپ اس سے صلہ رحمى كا سلوك كريں، اور اگر آپ پر ظلم و ستم كرتا ہے تو آپ اس كو معاف كر ديں، اور اگر وہ آپ كى موجودگى يا غير حاضرى ميں آپ كے خلاف بات كرتا ہے تو آپ اس كا مقابلہ مت كريں بلكہ اسے معاف كر ديں، اور اس سے نرم بات چيت كا مظاہر كريں.

اور اگر وہ آپ سے بائيكاٹ كرتا ہے اور آپ سے بات چيت بند كر ديتا ہے تو آپ اس سے اچھى كلام كريں، اور اس كے ليے سلامتى و سلام پيش كرے، اس ليے اگر آپ برے سلوك كا مقابلہ اچھائى اور بھلائى كے ساتھ كريں گے تو عظيم الشان فائدہ حاصل ہوگا.

تو وہى جس كے اور آپ كے مابين عداوت و دشمنى ہے وہ آپ كا دلى دوست بن جائيگا.

يعنى گويا كہ وہ آپ كا قريبى اور شفقت كرنے والا ہے.

" و ما يلقاھا " يعنى اس خصلت حميدہ كا مالك وہى ہو سكتا ہے، اور اس كى توفيق اسے ہى حاصل ہوگى جنہيں درج ذيل خصلت حاصل ہو گى.

" الا الذين صبروا "

جنہوں نے برى چيز كے مقابلہ ميں صبر و تحمل سے كام ليا اور اپنے آپ كو اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت فرمانبردارى اور محبوب اشياء پر مجبور كيا، كيونكہ نفوس تو پيدائشى طور پر برے سلوك كا مقابلہ برے سلوك كے ساتھ كرنے پر تيار ہيں اور معاف نہيں كرتے، تو پھر احسان كيسے ؟

اس ليے جب كوئى شخص صبر و تحمل سے كام لے اور اپنے پروردگار كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كرتے ہوئے اس پر عمل كرے، اور عظيم اجروثواب كو پہچان لے، اور يہ ومعلوم كر ليتا ہے كہ برا سلوك كرنے والے كا مقابلہ برے سلوك كے ساتھ كرنے ميں كوئى فائدہ نہيں، اور اسے يہ معلوم ہو جائے كہ عدوات و دشمنى تو شدت و سختى ميں اضافہ كا باعث بنتى ہے، اور برا سلوك كرنے والے كے ساتھ اچھا سلوك كرنے سے اس كى قدر كى قدرو منزلت ميں كوئى كمى نہيں ہوگى، بلكہ جو شخص اللہ كے ليے تواضع و عاجزى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كى عزت ميں اور اضافہ كرتا ہے، تو وہ شخص احسان اور اچھا سلوك كرنے ميں لذت محسوس كرتا ہے.

" و ما يلقاھا الا ذو حظ عظيم "

اور يہ چيز تو بڑے نصيبے والے كو ہى حاصل ہوتى ہے.

كيونكہ يہ خصلت تو خاص شخص كو ہى حاصل ہوتى ہے، جس سے بندہ دنيا و آخرت ميں رفعت و بلندى حاصل كرتا ہے، اور يہى مكارم اخلاق كى خصلت ميں شامل ہوتا ہے " انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 549 - 550 ).

جب يہ سب كچھ مخلوق كے متعلق ہے، تو پھر آپ كے خاوند كے ساتھ كيسا سلوك كرنے كا حكم ہوگا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو يہاں تك فرمايا ہے كہ:

" اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ كسى ( غير اللہ ) كو سجدہ كرے تو ميں عورتوں كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوندوں كو سجدہ كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ان كے ليے ان عورتوں پر حق ركھے ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2140 ) مندرجہ بالا الفاظ ابو داود كے ہيں، سنن ترمذى حديث نمبر ( 1192 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 1203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہمارى عزيز بہن: ہم آپ سے اس ليے مخاطب تھے كہ آپ نے ہى سوال كيا تھا، ہمارا خيال ہے كہ آپ كا ہمارى بات سننا زيادہ قريب تھا، اور آپ ہمارى نصيحت كو جلد قبول كرينگى چاہے اس كے ليے آپ كو بھارى قيمت ادا كرتے ہوئے اپنے كچھ حقوق سے دستبردار بھى ہونا پڑے، اور آپ اپنے اوپر كيے گئے ظلم كو معاف كر ديں تو كوئى حرج نہيں.

كون بے وقوف ہے جو يہ گمان كرتا ہو كہ اپنے كچھ حقوق سے دستبردار ہو جانا اور معاف كر دينا عيب و نقصان كہلاتا ہے، بلكہ يہ تو كمال اخلاق كہلاتا ہے.

امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" صدقہ كرنے سے مال ميں كمى نہيں ہوتى، اور معافى و درگزر سے تو اللہ سبحانہ و تعالى بندے كى عزت ميں اضافہ فرماتا ہے، اور اللہ كے ليے تواضع و انكسارى اختيار كرنے والے كو اللہ تعالى اور بلند فرماتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2588 ).

رہى آپ كے خاوند كے ساتھ بات كرنا، يا اسے ڈانٹنا اور سزا دينا تو يہ ايك ناصح و شفقت كرنے والے كى بات ہوگى اور اسے ان كى طرف سے عتاب ہوگا جو اس سے محبت كرنے والے ہيں، اور اس كے ليے برے انجام اور برى راتوں سے ڈرنے والے ہيں كہ كہيں اس كا انجام برا نہ ہو، اور وہ اسے ابليس اور اس كے لاؤ لشكر كى اطاعت كرنے اور بات ماننے سے اجتناب كرنے اور ان سے بچ كر رہنے كى تليق كريں گے، كہ كہيں شيطان كى بات مان كر اللہ جل جلالہ كى نافرمانى كر كے اللہ كے غضب كا شكار نہ ہو جائے.

آپ كا خاوند كا ابليس لعين كى اطاعت كرتے ہوئے بات كو كچھ اس طرح ماننا ہے كہ:

صحيح مسلم ميں جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا ابليس اپنا تخت پانى پر لگا كر اپنا لاؤ لشكر بھيجتا ہے، اور ابليس كے ہاں سب سے قريب قدر و منزلت والا وہ شيطان ہوتا ہے جو سب سے زيادہ فتنہ پھيلانے والا ہو، ان ميں سے ايك شيطان آ كر ابليس سے كہتا ہے ميں نے ايسے ايسے كيا، ابليس اسے كہتا ہے تم نے كچھ بھى نہيں كيا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ايك دوسرا شيطان آ كر كہتا ہے: ميں نے اسے اس وقت تك نہيں چھوڑا جب تك اس كے اور اس كى بيوى كے مابين عليحدگى نہيں كرادى.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تو ابليس اسے اپنے قريب كرتا اور كہتا ہے: ہاں تم ہو!! اعمش رحمہ اللہ كہتے ہيں كہ: ميرا خيال ہے كہ آپ نے فرمايا: وہ اسے اپنے ساتھ لگاتا ہے !! "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2813 ).

رہا مسئلہ كہ آپ نے خاوند نے اپنے پروردگار كا غضب اور ناراضگى مول لى ہے اور وہ اللہ سبحانہ و تعالى كى نافرمانى و معصيت كا مرتكب ہوا ہے، لہذا وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ضرور سنے:

" تم عورتوں كے بارہ ميں اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرو اور ڈرو، كيونكہ تم نے انہيں اللہ ك امان كے ساتھ حاصل كيا ہے، اور تم نے ان كى شرمگاہيں اللہ كے كلمہ كے ساتھ حلال كى ہيں... "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1218 ).

اللہ كے بندے كيا اللہ كى امان اس طرح ہوتى ہے؟!!

اللہ كے بندے كيا اللہ كے كلمہ كے ساتھ ايسے كرو گے؟!!

كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وصيت كے ساتھ يہ سلوك كر رہے ہو؟

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو آپ كو يہ فرمايا ہے:

" عورتوں كے ساتھ اچھا سلوك كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3331 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1468 ).

اور ايك حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے اہل و عيال كے ليے اچھا ہے، اور ميں اپنے اہل و عيال كے ليے تم ميں سے سب سے بہتر ہوں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

كيا نيكى و حسن سلوك اور حسن معاشرت ايسے ہى ہوتى ہے جيسے آپ كر رہے ہيں.

حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان تو يہ ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).

كيا بيوى بچوں كى ديكھ بھال اور ذمہ دارى اس طرح ادا ہوتى ہے جس طرح آپ كر رہے ہيں؟

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تو يہ ہے:

" تم ميں سے ہر ايك شخص ذمہ دار اور نگران و حاكم ہے اور وہ اپنى رعايا كے بارہ جوابدہ ہے، حكمران اپنى رعايا كا ذمہ دار ہے، اور اس سے اس كے متعلق باز پرس كى جائيگى، اور آدمى اپنے اہل و عيال كا ذمہ دار ہے اس سے ان كے متعلق باز پرس كى جائيگى، اور عورت اپنے خاوند كے گھر كى ذمہ دار ہے اس سے اس كے بارہ ميں باز پرس كى جائيگى، اور خادم اپنے مالك كے مال كا ذمہ دار ہے اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں جواب دينا ہوگا"

راوى بيان كرتے ہيں كہ ميرا خيال ہے كہ آپ نے فرمايا كہ: آدمى اپنے باپ كے مال كا ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا، تم ميں سے ہر ايك ذمہ دار ہے اور اس سے اس كى ذمہ دارى كے بارہ ميں سوال كيا جائيگا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 893 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1829 ).

كيا آپ نے جليل القدر صحابى رسول صلى اللہ عليہ وسلم عائذ بن عمرو رضى اللہ تعالى كے بارہ ميں نہيں سنا كہ وہ عبيد اللہ بن زياد جو كہ ايك ظالم گورنر تھا كے پاس گئے اور اسے كہنے لگے:

" ميرے بيٹے ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا ہے كہ آپ فرما رہے تھے:

" سب سے شرير اور برے راعى اور ذمہ دار وہ ہيں جو ظلم و ستم كرنے والے ہيں؛ اس ليے ميرى نصيحت ہے كہ تم ان ميں سے مت بنو!! "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1830 ).

اللہ كے بندے كيا آپ نے اس سے قبل كبھى سنا ہے كہ بيمارى كے ليے كوئى عمر كى قيد ہے، يا پھر سردرد كے ليے كسى جگہ يا وقت كى شرط پائى جاتى ہے؟!!

ہم نے تو اس سے عجيب و غريب كوئى اور بات نہيں سنى!!

يا پھر آپ كو دليل كى ضرورت ہے ؟ تو پھر اللہ كے بندے ذرا غور سے سنيں:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بقيع سے واپس آئے تو مجھے سردرد ہو رہى تھى اور ميں كہہ رہى تھى: ہائے ميرا سر تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: بلكہ عائشہ ہائے ميرا سر "

اسے ابن ماجہ نے حديث نمبر ( 1465 ) ميں روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے مشكاۃ المصابيح كى تخريج حديث نمبر ( 5970 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسلمان بھائى آپ كو ياد ركھنا چاہيے كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس دنيا سے رخصت ہوئے اور وفات پائى تو سيدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى عمر اٹھارہ برس تھى جس كا معنى يہ ہوا كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو يہ سردرد اٹھارہ برس كى عمر سے قبل ہوئى تھى يعنى چھوٹى عمر ميں ہى تھيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى سردرد كى تصديق ہى نہيں كى بلكہ ان كى تكليف كو كم كرنے كے ليے اسے اپنے سر كى درد قرار ديا جو كہ ايك وجدانى كيفيت كى حيثيت ركھتى ہے.

اور جب ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے دريافت كيا گيا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر مي كيا كرتے تھے ؟

تو انہوں نے جواب ديا: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنى بيويوں كے ساتھ كام كاج ميں شريك ہوا كرتے تھے ـ يعنى ان كى خدمت كيا كرتے تھے ـ اور جب نماز كا وقت ہو جاتا تو نماز كے ليے چلے جاتے "

اسے امام بخارى نے صحيح بخارى حديث نمبر ( 676 ) ميں روايت كيا ہے.

اگر آپ دليل چاہتے ہيں تو يہ اس كى دليل ہے، ليكن ہمارے خيال ميں آپ كو دليل كى ضرورت نہيں ہے كہ آپ عمل اسى صورت ميں كريں گے جب اس بيمارى كى آپ كے پاس كوئى دليل ہو، راستہ تو آپ كے سامنے ہے، ليكن آپ اس راستے پر چل نہيں رہے!!

اللہ كے بندے آپ كے ساتھ بات طويل و لمبى اور پچيدہ ہے بات سے بات نكل رہى ہے، اور جسے قليل اور تھوڑى بات فائدہ نہ دے اسے زيادہ بات كبھى فائدہ نہيں ديتى!!

اس ليے اللہ كے بندے آپ اس سے بچيں كہ اللہ آپ كو آزمائش ميں ڈالے، اور آپ اس كمزور اور ضعيف عورت كے متحاج ہوں كہ وہ آپ كو سنبھالے، اور آپ كى ديكھ بھال كرے تو كيا آپ پسند كرتے ہيں كہ وہ بھى اس وقت آپ كے ساتھ اسى طرح كا معاملہ كرے جس طرح اس كے ساتھ آپ كر رہے ہيں؟!!

يا آپ يہ پسند كرتے ہيں كہ وہ آپ سے زيادہ كريم بنتے ہوئے آپ كى تصديق كرے، حالانكہ آپ اسے جھوٹا كہہ رہے ہيں، اور وہ آپ كى ديكھ بھال كرے حالانكہ آپ اسے ضائع كر رہے ہيں اور اس كى تكليف كا احساس نہيں كر رہے، اور وہ آپ كے ساتھ نرمى و شفقت كا برتاؤ كرے، حالانكہ آپ اس پر تنگى كر رہے ہيں، وہ آپ سے بردبارى كا معاملہ كرے حالانكہ تم اس سے جہالت و بے وقوفى كا معاملہ كر رہے ہو؟!!

اللہ كى قسم ان ميں سے زيادہ ميٹھا كڑوا ہے!!

اس ليے اللہ كے بندے آپ اپنے ليے احسان و بھلائى كى راہ اختيار كريں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

احسان كا بدلہ احسان كے علاوہ كچھ نہيں الرحمن ( 60 ).

جو كوئى بھى خير و بھلائى كريگا اسے اس كا بدلہ ضرور ملےگا، اللہ اور لوگوں ميں عرف رائيگاں نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب