سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

نماز عشاء كا وقت

سوال

بعض لوگ كہتے ہيں كہ نماز عشاء فجر كى اذان تك ادا كى جاسكتى ہے اور بعض كا كہنا ہے كہ اس كا وقت تھجد كے وقت ختم ہو جاتا ہے، اور بعض افراد كہتے ہيں كہ عشاء كى اذان سے فجر كى اذان تك كا وقت شمار كر كے اسے دو حصوں ميں تقسيم كريں تو عشاء كى نماز كا آخرى وقت نكلتا ہے، چنانچہ اس سلسلے ميں كيا حكم ہے ؟
يہ علم ميں رہے كہ نماز وقت سے تاخير كرنى جائز نہيں، بلكہ ہم اس كا حكم جان كر مستفيد ہونا چاہتے ہيں.

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدھى رات سے قبل نماز عشاء ادا كرنا واجب ہے، اور نصف رات تك عشاء كى نماز ميں تاخير كرنى جائز نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور عشاء كا وقت نصف رات تك ہے "

صحيح مسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاۃ حديث نمبر ( 964 ).

اس ليے آپ كو چاہيے كہ آپ فلك كے دوران كے حساب كے مطابق آدھى رات سے قبل نماز عشاء ادا كر ليا كريں، كيونكہ رات چھوٹى بڑى ہوتى رہتى ہے، اور رات كو گھنٹوں كے حساب سے نصف كيا جا سكتا ہے، اگر رات دس گھنٹوں كى ہو تو آپ پانچ گھنٹوں سے زيادہ نماز عشاء ليٹ نہيں كر سكتے ليكن افضل يہ ہے كہ آپ نماز عشاء اول رات كے تہائى حصہ ميں نماز عشاء ادا كريں.

اور جو شخص نماز عشاء اول وقت ميں ادا كرتا ہے اس كے ليے بھى كوئى حرج نہيں، ليكن اگر وہ كچھ ليٹ كر كے ادا كرے تو يہ افضل ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز عشاء كچھ وقت ليٹ كر كے ادا كرنا پسند كرتے تھے، اور جس شخص نے اول وقت ـ سرخى غائب ہونے كے بعد ـ افق پر لمبائى ميں پائى جانے والى سرخى غائب ہونے كے بعد نماز عشاء ادا كر لى اس ميں كوئى حرج نہيں.

ماخذ: ديكھيں: مجموع فتاوى الشيخ عبد العزيز بن باز ( 10 / 386 )