سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

لڑكى كو پسند كرتا ہے ليكن گھر والے لڑكى كے والد كى خراب شہرت كى بنا پر انكار كرتے ہيں

112434

تاریخ اشاعت : 23-07-2010

مشاہدات : 7244

سوال

ميں اپنى پڑوسن كى لڑكى كو جنون كى حد تك پسند كرتا ہوں، ہم ايك ہى سكول پڑھتے رہے ہيں اكٹھے سكول جاتے تھے ہمارى يہ محبت پاكيزہ اور شريف محبت تھى، الحمد للہ ہم نے ايك دوسرے كے ساتھ شادى كا وعدہ كيا تھا.
اب ميں كہيں جانے والا ہوں ہم جب آخرى بار رات كو ملے تو ہم نے كتاب اللہ پر ايك دوسرے سے وعدہ كيا كہ ہم ميں سے كوئى بھى اللہ كے حكم سے كہيں اور شادى نہيں كريگا.
جناب مولانا صاحب يہ لڑكى محترم ہے اور اپنے پروردگار كے حقوق كا علم ركھتى ہے، اور شام كى كلاس ميں قرآن مجيد اور فقہ و سيرت كے اسباق كى تعليم حاصل كر رہى ہے، جناب مولانا صاحب مجھے كچھ مشكلات درپيش ہيں:
اول:
ميرے گھر والے اس سے شادى كرنے سے انكار كرتے ہيں مجھے معلوم ہے كہ وہ شادى كے بعد راضى ہو جائينگے، باقى علم تو اللہ كے پاس ہے.
دوم:
يہ لڑكى اس معاشرہ ميں مظلوم ہے اللہ انہيں ہدايت دے مولانا صاحب اس لڑكى كى والدہ كو طلاق ہو چكى ہے اب وہ اپنے باپ كے ساتھ رہتى ہے، اس كے والد نے اس كى خالہ سے شادى كر ركھى ہے، اس كى خالہ اور پھوپھى اور دادى اس لڑكى پر ظلم كرتے ہيں، اس سے گھر كا سارا كام كاج اور كھيتى باڑى بھى كرواتے ہيں، بلكہ سارے كام وہى كرتى ہے، ميں اسے اس ماحول سے نجات دلانا چاہتا ہوں.
سوم:
اس لڑكى كا والد نشہ كرتا ہے اور پرانے كام كرتا ہے والد كى شہرت كى بنا پر ميرے گھر والے اس لڑكى سے شادى كرنے كو اچھا نہيں سمجھتے، ميں اسے اس ماحول اور ظلم سے نجات دلانا چاہتا ہوں، اور پھر لڑكى بھى اپنے والد كے كاموں سے راضى نہيں، كيونكہ گناہ تو اس كے والد كا ہے، يعنى ہم كسى شخص كو دوسرے كے گناہوں كى سزا كيوں ديں.
اللہ كى قسم ميں بہت پريشان ہوں، جناب مولانا صاحب ميرى مدد و معاونت كريں، اور مجھے صحيح رائے ديں كيونكہ ميرا اس لڑكى كو چھوڑنا بہت بڑى مصيبت كا باعث ہے، اميد ہے ميرا پروردگار اسے اس ظلم سے نكالےگا، اور مشكلات كو آسان كريگا، اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دين اور اخلاق والى بيوى اختيار كرنى چاہيے جو اپنے خاوند كى بھى حفاظت كرے اور اپنے گھر اور اپنى عزت كى بھى اور بچوں كى اسلامى تربيت كرنے والى ہو، اور اسلامى معاشرہ ميں اسلامى گھر اور خاندان بنانے ميں معاونت كرنے والى ہو.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى طرح راہنمائى كرتے ہوئے فرمايا:

" عورت سے چار اسباب كى بنا پر نكاح كيا جاتا ہے: اس كے مال كى بنا پر، اور اس كے حسب و نسب كى بنا پر، اور اس كے حسن و جمال اور خوبصورتى كى بنا پر، اور اس كے دين كى بنا پر تيرے ہاتھ خاك آلود ہوں تم دين والى كو اختيار كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4802 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1466 ).

اس سلسلہ ميں تساہل و كوتاہى سے كام نہيں لينا چاہيے اور نہ ہى اپنے جذبات و احساسات كے پيچھے بھاگنا چاہيے، اور جسے محبت كا نام ديا جاتا ہے اس كے پيچھے مت بھاگيں، كيونكہ كتنى ہى شادياں ناكامى كا شكار ہوئى ہيں؛ اس ليے كہ وہ دين كى بنياد پر قائم نہ تھيں.

انسان كو كسى دوسرے شخص كےافعال كى سزا نہيں دى جاتى، وہ تو اپنے اعمال كى سزا ہى بھگتےگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور كوئى بھى جان كسى دوسرے كا گناہ نہيں اٹھائيگى الاسراء ( 15 ).

ليكن انسان كے سسرال والوں كا اس سے تعلق نہيں كٹ سكتا، اسے ان كے ساتھ معاملات بھى كرنا ہوتے ہيں، اور انہيں ملنے بھى جانا ہوتا ہے، اور اس كى اولاد بھى ان سے متاثر ہو سكتى ہے، اس ليے كسى اچھے خاندان كو تلاش كرنا چاہيے جس كى شہرت بھى اچھى ہو، كيونكہ ايسا كرنے كا خاوند اور اس كے گھر والوں اور اس كى اولاد پر اچھا اثر ہوتا ہے، اور پھر يہ خاندان برقرار ركھنے كے عوامل و اسباب ميں شامل ہوتا ہے، اور جن عوامل كى بنا پر عام طور پر خاندان بكھر جاتے ہيں اور مشكلات پيدا ہو جاتى ہيں ان سے نكلنے كا باعث بنتا ہے.

اس ليے اس رشتہ كے انكار پر ہم آپ كے گھر والوں كو ملامت نہيں كرتے، كيونكہ انہوں نے ايك نشئى آدمى كے ساتھ رشتہ دارى قائم كرنے سے انكار كيا ہے جس كى شہرت اچھى نہيں، كيونكہ يہ چيز ان كے ليے اور ان كى آنے والى نسل كے ليے خراب شہرت كا باعث بنےگى.

محبت و جذبات جيسے قضيہ كو عقل و انصاف اور وسعت نظر كے ساتھ ديكھنا چاہيے، بعض اوقات انسان يہ خيال كرتا ہے كہ وہ اس لڑكى كے بغير نہيں رہ سكتا، اور اسے چھوڑ نہيں سكتا، اور اس ميں يہ يہ صفات پائى جاتى ہيں.

ليكن اگر وہ عقلمندى سے كام لے اور غور وفكر كرے تو يہ واضح ہوگا اس كى نظر اور جذبات نے مبالغہ سے كام ليا ہے، اس ليے آپ اپنے سامنے دقيق قسم كا موازنہ ركھيں جو اس لڑكى كى نيكيوں اور برائيوں ميں مقارنہ كرے، اور اس سے مرتبط ہونے كى صفات و عيوب كو مدنظر ركھيں، اور پھر يہ سب كچھ ديكھنے اور موازنہ كرنے كے بعد كوئى فيصلہ كريں، اس ميں اپنے آپ كو دھوكہ ميں مت ركھيں، كيونكہ آپ ہى اس كے نتائج كا شكار ہونگے، اور اس كا بوجھ بھى آپ پر ہى آنا ہے.

دوم:

جب آپ كے نزديك اس لڑكى سے شادى كرنا راجح قرار پائے تو پھر آپ اپنے گھر والوں كو مطئمن اور راضى كرنے كى كوشش كر كے ان كى موافقت حاصل كرنے كى كوشش كريں كيونكہ جب والدين كسى معين لڑكى سے شادى كرنے سے منع كر ديں تو اصلا اس ميں ان كى اطاعت و فرمانبردارى كرنا ہو گى؛ كيونكہ والدين كے ساتھ حسن سلوك كرنا واجب ہے، اور كسى معين اور مخصوص لڑكى سے شادى كرنا واجب نہيں.

اس سے استثناء اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انسان كو زنا ميں پڑنے كا خوف ہو، كہ اگر اس شخص كى اس عورت كے ساتھ شادى نہ ہوئى تو ظن غالب ميں وہ اس عورت كے ساتھ زنا تك جا سكتا ہے.

سوم:

گھر والوں كو چاہيے كہ جب يہ واضح ہو جائے كہ ان كا بيٹا كسى معين لڑكى سے محبت كرتا ہے، اور وہ لڑكى بھى نيك و صالح اور صحيح راہ پر قائم ہے تو وہ اس سے شادى كى مخالفت مت كريں، كيونكہ ان دونوں كى شادى ہى اس كا بہتر علاج ہے جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" دو محبت كرنے والوں كے ليے نكاح جيسى كوئى چيز نہيں ديكھى گئى "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1847 ) علامہ بوصيرى نے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 624 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور جب وہ اچھى نيت كے ساتھ اس لڑكى كو اس كے گھر والوں سے نجات دلانا چاہتے ہوں تو يہ بہت اچھا اور بہتر ہے خاص كر جب وہ ان سے دور كسى اور جگہ منتقل ہو جائے اور اس كى اولاد اس خراب ماحول سے متاثر نہ ہو جس ميں رہ رہے ہيں، اس وجہ سے اس كے ساتھ شادى كرنا بہتر ہے.

چہارم:

يہ بات مخفى نہيں كہ آپ اس عورت كے ليے ايك اجنبى مرد كى حيثيت ركھتے ہيں اس ليے آپ نہ تو اس كے ساتھ خلوت كر سكتے ہيں، اور نہ ہى مصافحہ اور نہ ہى اس كے محاسن كو ديكھ سكتے ہيں، اور اسى طرح محبت كى باتيں كرنا بھى جائز نہيں، اور ٹيلى فون پر بات چيت بھى نہيں كر سكتے، اگر ماضى ميں آپ ايسا كر چكے ہيں تو اس سے توبہ و استغفار كريں.

اسى طرح مخلوط تعليم سے بھى توبہ كرنا ہوگى جو ان خرابيوں كى جڑ ہے اور ان حرام كاموں سے خالى نہيں، بلكہ اس كے لڑكے اور لڑكى پر برے اثرات پڑتے ہيں.

ہم آپ كو وصيت كرتے ہيں كہ آپ ان اہل خير ميں سے ان افراد كے ساتھ مشورہ كريں جو اس لڑكى اور اس كے گھر والوں كو جانتے ہيں، اور پھر كوئى بھى قدام اٹھانے سے قبل استخارہ ضرور كريں، كيونكہ جو شخص مشورہ اور استخارہ كر كے كوئى كام كرتا ہے وہ نہ تو نادم ہوتا ہے اور نہ ہى پريشان.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 23420 ) اور ( 84102 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ آپ كے ليے معاملہ كو آسان كرے اور آپ كى راہنمائى فرمائے، اور آپ كے معاملات كا انجام اچھا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب