اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

كيا والدين كا كسى ايك بيٹے كے ليے اكيلا كمرے ميں سونا عدل كے خلاف ہے ؟

120374

تاریخ اشاعت : 20-01-2011

مشاہدات : 7708

سوال

ميرے تين بھائى ہيں ايك كى عمر بارہ برس اور دوسرے كى دس بر ساور تيسرے كى چھ برس اور ميرى عمر سترہ برس ہے، والد صاحب نے مجھے سونے كے ليے بالكل عليحدہ كمرہ ديا ہے اور ميرے تينوں بھائى ايك دوسرے كے ساتھ ايك ہى كمرہ ميں سوتے ہيں، كيا يہ ظلم تو نہيں ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم بہت سارے جوابات ميں بيان كر چكے ہيں كہ والدين كا اپنى اولاد كو ہديہ اور تحفہ دينے ميں عدل و انصاف سے كام لينا واجب ہے، اس كى تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 22169 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ہم جو يہ بات كر رہے ہيں وہ عطيہ اور تحفہ كے متعلق ہے نفقہ اور اخراجات كے بارہ ميں نہيں؛ كيونكہ نفقہ اور اخراجات چھوٹے اور بڑے كے مختلف ہوتے ہيں، اور پھر عورت اور مرد كے بھى عليحدہ ہوتے ہيں.

اور ہم جو نفقہ اور اخراجات ميں كہيں گے وہى يہاں اس سوال ميں وارد مسئلہ كے بارہ ميں كہتے ہيں، عقلند اور دانشوروں كے ہاں يہ معروف و معلوم ہے كہ بہتر يہى ہے كہ لڑكياں اپنے بھائيوں كے كمرے ميں مت سوئيں، اور اسى طرح بڑے چھوٹے بچوں كے كمرہ ميں نہ سوئيں، يہ ايسے امور ہيں جن سے اولاد ميں عدل كا كوئى تعلق نہيں، بلكہ يہ تو طبيعت كا تقاضا ہے، اور مصلحت بھى اسى ميں پائى جاتى ہے.

كيونكہ يہ تو معلوم ہے كہ لڑكيوں كى طبيعت لڑكوں كى طبيعت سے مختلف ہوتى ہے، اور لڑكى اپنے كمرے ميں وہ كچھ چاہتى ہے جس ميں اس كا بھائى شريك نہ ہو، اور اسى طرح ان ميں عمر مختلف ہونے كى صورت ميں بھى كہا جائيگا.

اس بنا پر اس ميں كوئى مانع نہيں كہ مثلا والد اپنى بيٹى كے ليے عليحدہ كمرہ مقرر كر دے، اور سب بيٹوں كے ليے مناسب تعداد كے مطابق ايك ہى كمرہ ميں جمع كر دے، اور اسى طرح اس ميں بھى كوئى مانع نہيں كہ بڑے بيٹے كو اپنے چھوٹے بھائيوں سے عليحدہ مستقل كمرہ ميں منتقل كر دے.

يہاں كئى ايك امور كى تنبيہ كى جاتى ہے كہ:

اول:

چھوٹى عمر سے ہى بچوں كے بستر عليحدہ كرنے كا خيال ركھا جائے، اور خاص كر جب دس برس كى عمر كے ہو جائيں تو پھر عليحدہ كرنا ضرورى ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز كا حكم دو، اور جب دس برس كے ہو جائيں تو انہيں نماز ( ادا نہ كرنے ) پر مارو، اور ان كے بستر عليحدہ كر دو "

مسند احمد حديث نمبر ( 6717 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 495 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 298 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 78833 ) كے جواب كا مطالعہ كريں كيونكہ يہ بہت اہميت كا حامل ہے.

دوم:

ہمارى رائے كے مطابق اس ميں كوئى مصلحت نہيں كہ ايك ہى كمرہ ميں چھوٹے اور بڑے سوئيں.

سوم:

بعض اوقات اس ميں مصلحت نہيں ہو سكتى كہ ہر بچے اور بچى كو عليحدہ كمرہ ميں ركھا جائے؛ كيونكہ وسوسہ ميں شيطان اكيلے كے زيادہ قريب ہوتا ہے، اور دو يا تين ميں معصيت و برائى ابھارنے سے اكيلے كے زيادہ قريب ہے، اس ليے اگر ايك كمرہ ميں ايك سے زائد كو ركھا جائے تو يہ افضل اور بہتر ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے، اور والدين كو اپنى اولاد كا خيال كرنے اور ان كى اچھى اور بہتر تربيت كرنے كى توفيق دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب