الحمد للہ.
عبادت تنگی اور مشقت کا باعث نہیں ہوتی کہ مسلمان کو اس سے وقفہ اور راحت کا وقت طلب کرنے کی ضرورت محسوس ہو، بلکہ عبادت اللہ تعالی سے محبت اور تعظیم کیلیے ہوتی ہے، اللہ تعالی سے سچی رغبت عبادت کیلیے ابھارتی ہے، دل میں موجود اللہ تعالی کی تڑپ بندگی پر مجبور کرتی ہے، چنانچہ مسلمان اسی رغبت اور تڑپ کی وجہ سے اپنے پروردگار اور مولی کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرتا ہے، اسی سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے، اللہ تعالی کی رحمت سے امید لگا کر اس کے فضل، کرم اور قرب کا سوال کرتا ہے، لہذا جس شخص کی یہ کیفیت ہو تو وہ کبھی بھی عبادت اور بندگی سے پہلو تہی کا سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ ہمیشہ اللہ تعالی کی بندگی اور اطاعت کے مواقع بڑھانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے، اس کی وجدانی حالت ایسی ہوتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: (بلال! ہمیں نماز کے ساتھ راحت پہنچاؤ)
امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ کامل بندگی کامل محبت کی بدولت ہی ممکن ہے، اور کامل محبت اسی محبوب سے ہو سکتی ہے جو خود بھی کامل ہو، چنانچہ اللہ تعالی کی ذات کامل بھی ہے بلکہ کمال مطلق کے ساتھ متصف بھی ہے، یعنی اللہ تعالی کے کمال میں کسی قسم کی کمی کا کوئی اندیشہ بھی نہیں ہے، لہذا جس ذات کی اتنی عظیم شان ہو تو دل اس کے علاوہ کسی سے بھی محبت نہیں کرتا، لیکن شرط یہ ہے کہ صاحب دل کی فطرت اور عقل سلیم ہو قائم دائم ہو، چنانچہ اگر ذات باری تعالی کسی دل کو سب سے زیادہ محبوب ہو تو باری تعالی کی محبت صاحب دل کو بندگی اور اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے، رضائے محبوب کی جستجو میں بندگی کرتے ہوئے ساری توانائیاں صرف کئے بغیر کوئی راستہ باقی نہیں رہنے دیتی، دل کا میلان صرف اسی کی جانب رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بندگی کیلیے رغبت کا سبب بننے والے امور میں محبت کا سب سے زیادہ کردار ہے، اسی لیے محبت کا معاملہ امر، نہی، جزا اور سزا وغیرہ کے کہیں بلند و بالا ہے، اگر امر و نہی اور جز ا و سزا نہ بھی ہوں تو دل اللہ کی محبت کی وجہ سے اسی کے ساتھ تعلق لگائے رکھے گا۔
اس بنا پر کچھ سلف کا محبت کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ: " محبت ایک دل سے اپنے محبوب کیلیے وہ کرواتی ہے جو محبوب کے بول سے رونما نہیں ہوتا"
اسی بات کو مد نظر رکھ کر عمر رضی اللہ عنہ نے صہیب کے بارے میں فرمایا تھا: "صہیب کو اللہ کا خوف نہ ہوتا تو بھی وہ اللہ کی نافرمانی کے لے تیار نہ ہوتا"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہ عادت مبارکہ تھی کہ آپ اتنا لمبا قیام فرماتےکہ آپ کے دونوں قدم سوج جائے، تو آپ سے کہا گیا: "آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں حالانکہ آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ ہی معاف ہو چکے ہیں؟!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تو کیا میں اللہ کا شکر گزار نہ بنوں)
لہذا اللہ تعالی کی بندگی ، حمد خوانی اور اللہ تعالی سے محبت اس لیے کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی ان تمام امور کا حقدار ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کا جتنا بندوں پر حق بنتا ہے اسے ادا کرنے کی کسی بھی بندے میں سکت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اللہ تعالی کے حق کا تصور ہی ذہن میں لا سکتا ہے، لہذا کوئی بھی شخص اللہ تعالی کی کما حقُہ عبادت نہیں کر سکتا، بلکہ جتنی بھی محبت یا حمد خوانی کر لے اللہ تعالی کا حق پورا ہی نہیں کر سکتا، اسی بنا پر ساری خلقت سے افضل، اکمل اور اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین ، جن کے پاس اللہ تعالی کی سب سے زیادہ معرفت ہے،اور جن کو اللہ تعالی کا سب سے بڑا فرمانبردار ہونے کا شرف حاصل ہے انہوں نے فرما دیا :کہ (میں تیری ثنا کما حقہ بیان ہی نہیں کر سکتا)۔
بلکہ اس پر مستزاد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں یہ کہہ دیا کہ: (تم میں سے کسی کا عمل اس کو نہیں بچا سکتا) صحابہ کرام نے کہا: "اللہ کے رسول -صلی اللہ علیہ وسلم – آپ کو بھی نہیں بچا سکتا؟!" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرا عمل بھی مجھے نہیں بچا سکتا، الا کہ اللہ تعالی مجھے اپنی رحمت اور فضل سے ڈھانپ لے)
آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے آسمانوں، زمینوں اور ان دونوں کے درمیان موجود مخلوقات اور جن مخلوقات کو ابھی پیدا کرنا ہے ان کی تعداد کے برابر درود و سلام نازل ہوں۔
ایک مشہور مرفوع حدیث میں ہے کہ فرشتوں کی کچھ اقسام ایسی بھی ہیں جو اللہ کیلیے سجدے کی حالت میں پڑے ہوا ہیں جب سے ان کی تخلیق ہوئی ہے اس وقت سے انہوں نے سر ہی نہیں اٹھایا، اور کچھ ایسے ہیں جو ہمیشہ رکوع کی حالت میں ہیں انہوں نے کبھی رکوع سے سر نہیں اٹھایا اور یہ معاملہ روزِ قیامت تک جاری و ساری رہے گا، لیکن اس کے با وجود وہ قیامت کے دن کہیں گے: "باری تعالی! تو پاک ہے، ہم نے تیری عبادت کا حق ادا نہیں کیا"" انتہی
"مفتاح دار السعادۃ" (2/88-90)
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (49016) کا جواب بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.