بدھ 24 جمادی ثانیہ 1446 - 25 دسمبر 2024
اردو

ایسی قمیص پہن کر نماز پڑھنے کا حکم جس پر کچھ لکھا ہوا ہو

سوال

امام کے ساتھ با جماعت نماز کے دوران ایسی شرٹ پہن سکتے ہیں  جس پر کچھ لکھا ہوا ہو؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز میں تصویر، تحریر، اور مختلف علامات کے حامل لباس کو پہننے کے متعلق کچھ تفصیل ہے:

اول:

اگر یہ تصاویر خواتین، یا صلیب، یا مسلمان مخالف ممالک  کے مونوگرام ، یا جاندار چیزوں کی  تصاویر، یا شراب اور سگریٹ جیسی حرام کھانے پینے  کی چیزوں کی ہیں کہ تو پھر ایسے لباس  کو سرے سے پہننا ہی حرام ہے، اور اس لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مزید بڑا گناہ ہے؛ کیونکہ یہ تصاویر ذاتی طور پر ہی حرام ہیں، اس لیے اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق  ان چیزوں کی تصاویر والا لباس پہننا جائز ہی نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10439 )  کا جواب ملاحظہ کریں۔  

دوم:

اگر یہ لباس تصاویر پر مشتمل نہیں ہے، لیکن اس پر کچھ ایسی کتابت ہے جو گناہ کی ترغیب دلاتی ہیں، مثلاً انگریزی میں لکھا ہو: "Kiss me"  یا "Follow me" یا اسی طرح کی کوئی  اور تحریر جو جسم فروشی کی ترغیب کے لیے لوگ استعمال کرتے ہیں، یا کوئی ایسی عبارت جو عقیدے میں خلل کا باعث بنتی ہے  تو انہیں نماز سے ہٹ کر بھی پہننا جائز نہیں ہے، چنانچہ نماز میں اس لباس کو پہننا بالاولی حرام ہو گا، اس کے حرام ہونے کی وجہ سے بھی واضح ہے؛ کیونکہ اس میں بات بھی بری ہے، اور بے حیائی کی دعوت کے ساتھ ساتھ کفر کی دعوت بھی ہے، اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ
ترجمہ: اے ایمان والو! شیطان کے قدموں  کی پیروی مت کرو،  اور جو بھی اس کے قدموں کی پیروی کرتا ہے تو شیطان اسے بے حیائی اور برائی کا حکم دیتا ہے۔[النور: 21]

سوم:

اگر لباس  پر کوئی حرام تصویر یا تحریر نہیں ہے لیکن اس پر کچھ نقش و نگار، علامات  یا حرام تحریر کے علاوہ کوئی اور تحریر ہے تو اس کے حکم کے لیے دیکھا جائے گا:

پہلی صورت: اگر وہ دلکش ہے اور نظروں کو چراتی ہے ، اور غالب گمان یہی ہو کہ دیکھنے والے نمازیوں  کو نماز سے مشغول کر دے گی  تو پھر اس میں نماز پڑھنا مکروہ ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہر ایسی چیز سے ممانعت ثابت ہے جو انسان کو نماز سے پھیرے، جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ: (یقیناً نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اون کی دھاری دار چادر میں نماز ادا کی، اور اس کے نقش و نگار کی طرف دیکھا، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میری یہ دھاری داری چادر ابو جہم کو جا کر دے دو، اور مجھے ابو جہم کی سادہ نقش و نگار کے بغیر والی چادر لا دو؛ کیونکہ اس نے ابھی مجھے نماز سے  مشغول کر دیا تھا۔) ختم شد

اس حدیث کو بخاری: (373) نے روایت کرتے ہوئے اس پر عنوان قائم کیا: "باب ہے: جب کوئی  شخص نقش و نگار والے لباس میں نماز ادا کرے اور اس کے نقش و نگار نماز میں دیکھے"، اسی طرح اس حدیث کو امام مسلم: (556) نے روایت کیا ہے اور اس پر امام نووی نے باب قائم کیا ہے کہ: "باب ہے نقش و نگار والے لباس میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بارے میں"

علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"فقہائے کرام نے اس حدیث سے یہ حکم کشید کیا ہے کہ رنگ، نقش و نگار، اور گلکاری سمیت ہر ایسی چیز مکروہ ہے جو نماز سے مشغول کر دے؛ کیونکہ جب علت عام ہو تو اس کا حکم بھی عام ہوتا ہے، یہاں علت نماز سے مشغول کرنا ہے۔" ختم شد
" إحكام الأحكام " (ص/219)

امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں ہر ایسی چیز سے بچنے کا ذکر ہے جسے دیکھ کر انسان نماز سے مشغول ہو جاتا ہے۔" ختم شد
" المفهم لما أشكل من تلخيص مسلم " (2/163)

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی"  (2/72)میں کہتے ہیں:  
"ہر وہ چیز مکروہ ہے جو نمازی کو نماز سے مشغول کر دے ۔۔۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم -حالانکہ آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے خصوصی مدد، حفاظت اور خشوع  ملا ہوا تھا- کو اس چیز نے مشغول کر دیا تو آپ کے علاوہ لوگ تو بالاولی مشغول ہو سکتے ہیں۔" ختم شد

ایسے ہی علامہ بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسی چیز کا قبلہ کی سمت ہونا مکروہ ہے جو انسان کو  نماز کی تکمیل سے  مشغول کر دے۔" ختم شد
" كشاف القناع " (1/307)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (90097 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔  
دوسری صورت: اگر یہ نقش و نگار، اور غیر محرم کلمات بالکل معمولی نوعیت کے ہیں، ان کی جانب نمازیوں کی توجہ نہیں جاتی، یا اس قدر نقش و نگار وغیرہ عام طور پر پائے جاتے ہیں دیکھنے والے کی توجہ اس جانب جاتی ہی نہیں ، تو پھر اس میں کوئی کراہت نہیں ہے کہ ان میں نماز پڑھیں؛ کیونکہ اس میں ممانعت کی علت نہیں پائی جاتی۔

جیسے کہ حرب کہتے ہیں میں نے اسحاق رحمہ اللہ سے  ایک رومال میں نماز ادا کرنے کا حکم پوچھا اور انہیں رومال دکھایا کہ اس میں سبز دھاریاں اور نقش و نگار تھے، تو انہوں نے جواب دیا: جائز ہے۔ ختم شد
فتح الباری از ابن رجب (2/206)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر فرض کریں کہ امام پر ایسی چیزوں کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ امام  نابینا ہے، یا پھر یہ چیز اس کے لیے معمول کی بات ہے اور اب یہ چیز اس کی توجہ مبذول نہیں کرتی ، تو پھر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس پر نماز ادا کر سکتے ہیں۔" ختم شد
" مجموع فتاوى شیخ ابن عثیمین" (12/362)

خلاصہ یہ ہوا کہ: سوال میں مذکور شرٹ  اگر ایسی عبارت پر مشتمل ہے  جو حرام نہیں ہے، لیکن آنکھوں کو متوجہ کرتی ہے، دیکھنے والے نمازیوں  کو نماز سے مشغول کر دیتی ہے تو پھر اس میں نماز مکروہ ہو گی، وگرنہ نہیں۔

اور اگر وہ تحریر ہی حرام ہے، تو پھر ایسی شرٹ کو نماز میں اور نماز سے باہر کسی بھی صورت میں پہننا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب