منگل 25 جمادی اولی 1446 - 26 نومبر 2024
اردو

تصاویر والی جگہ پر نماز ادا کرنے کا حکم

سوال

اس میں کیا حکمت ہے کہ مسلمان کے لیے کسی ایسے کمرے میں نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے جہاں پر مورتیاں اور دیواروں پر تصاویر وغیرہ ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ ایسی جگہ نماز ادا کرنا منع ہے جہاں پر ذی روح چیزوں کی تصاویر ہوں، بلکہ کچھ تو اسے حرام بھی کہتے ہیں، تاہم اکثریت مکروہ ہونے کی قائل ہے۔

جیسے کہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسا کپڑا جس میں تصویر، یا صلیب، یا ایسی چیز ہو جو انسان کو غافل کر دے تو اس میں نماز ادا کرنا مکروہ ہے، اسی طرح ایسی چیز کا قبلہ سمت میں ہونا، یا اس پر نماز پڑھنا تمام اعمال مکروہ ہیں۔" ختم شد
" المجموع " (3/185)

اسی طرح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سمیت دیگر صحابہ کرام سے صحیح ثابت ہے ، اور یہی موقف امام احمد اور دیگر اہل علم سے منقول ہے کہ : اگر کلیسا میں تصاویر ہوں تو وہاں نماز ادا نہ کرے؛ کیونکہ فرشتے ایسے گھر میں داخل ہی نہیں ہوتے جہاں تصویر ہو، اور ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کعبہ میں اس وقت تک داخل نہیں ہوئے تھے جب تک وہاں موجود تصاویر مٹا نہیں دی گئیں۔ یہی بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی کہ : ہم ان کے کلیساؤں میں تصاویر کی موجودگی میں داخل نہیں ہوتے تھے" ختم شد
" مجموع الفتاوى " (22/162)

بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کھڑی مورتی کی جانب چہرہ کر کے نماز ادا کرنا مکروہ ہے، اس موقف کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے؛ ۔۔۔ کیونکہ اس طرح کافروں کے مورتیوں کو سجدہ کرنے کی مشابہت ہوتی ہے۔۔۔ الفصول میں یہ بھی ہے کہ: ایسی دیوار کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرنا مکروہ ہے جس میں تصویر یا مورتیاں ہوں؛ کیونکہ اس طرح بت اور تھان پرستوں کی مشابہت ہوتی ہے۔" ختم شد مختصراً
" كشاف القناع " (1/370)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (6/250-251)میں ہے:
"ایسی جگہ جہاں پر نمازیوں کے سامنے تصاویر ہوں نماز ادا کرنے سے بت پرستوں کی مشابہت ہے، اور ایسی بہت سی احادیث ہیں کہ جن میں کافروں کی مشابہت اختیار کرنے سے ممانعت ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، واضح رہے کہ ذی روح چیزوں کی تصاویر دیواروں پر لٹکانا جائز نہیں ہے، بلکہ یہ غلو اور شرک کے اسباب میں شامل ہے، اور اگر یہ تصاویر معزز لوگوں کی ہوں تو یہ امکان مزید بڑھ جاتا ہے۔" ختم شد
عبد العزیز بن باز- عبد الرزاق عفیفی – عبد اللہ غدیان – عبد اللہ بن قعود

جبکہ حنبلی فقہائے کرام کے علاوہ متاخر حنفی اور شافعی فقہائے کرام نے سخت موقف اپناتے ہوئے ایسی جگہ پر نماز ادا کرنے سے بھی منع کر دیا ہے جہاں پر تصویریں ہوں ، چاہے قبلہ کی مخالف سمت میں ہوں یا زمین پر گری ہوئی ہوں کہ نمازی کو نظر بھی نہ آئیں۔

جیسے کہ شافعی فقیہ علامہ شبراملسی کہتے ہیں:
"ایسے کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے جس میں تصویر ہو، اسی طرح ایسے کپڑے پر نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے ۔۔۔ چاہے نمازی نابینا ہی کیوں نہ ہو، یا اندھیرے میں نماز پڑھے ، یا تصویر نمازی کی پچھلی سمت میں ہو، یا زمین پر ایسے گری ہو کہ نمازی اس پر نماز پڑھ بھی رہا ہو تو اسے تب بھی نظر نہ آئے۔ تو یہ واضح موقف ہے۔ تو ایسی تصویر جو بذات خود ممنوع ہے اس کا معاملہ تو بالکل ہی بعید ہے۔" ختم شد
" حاشية نهاية المحتاج " (2/14)

دوم:
سابقہ اقتباسات سے ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم نماز پڑھنے کی ممانعت کی حکمتیں جان سکیں کہ ایسی جگہوں میں جہاں تصاویر اور مورتیاں ہوں وہاں پر نماز ادا کرنا کیوں منع ہے؟ جو کہ درج ذیل ہیں:

1-فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں پر تصویر ہو، جیسے کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو اور مورتی ہو)اس حدیث کو امام بخاری: (3225) اور مسلم : (2106) نے روایت کیا ہے۔

نمازی شخص اللہ تعالی سے نزول رحمت اور خیر کثیر مانگتا ہے تو نمازی کس طرح سے رحمت مانگ سکتا ہے جہاں رحمت لانے والے فرشتے ہی داخل نہیں ہو سکتے۔

2-بت پرستوں سے مشابہت نہ ہو بلکہ عیسائیوں سے بھی کہ جنہوں نے اپنے کلیساؤں کو عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ سیدہ مریم علیہا السلام کی خود ساختہ تصاویر سے بھر دیا ہے، غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کی ممانعت اہم ترین شرعی احکامات سے تعلق رکھتی ہے، اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی تشخص دیگر تہذیبوں کے مقابلے میں مندمل نہ ہو جائے ، اور اسلام کا روشن مظہر ہر وقت منور رہے۔

جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے حبشہ میں دیکھا ہوا ایک کلیسا کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کیا جہاں پر تصویریں لگی ہوئیں تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی فوت ہو جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے اور پھر ان مساجد میں ان کی تصاویر بناتے، وہ لوگ قیامت کے دن اللہ تعالی کے ہاں بد ترین مخلوق ہیں۔) اس حدیث کو امام بخاری: (427) اور مسلم : (528) نے روایت کیا ہے۔

3-نمازی کی توجہ اور دھیان کو ایسی چیزوں سے بچانا جو انسان کو نماز سے غافل کر دے؛ کیونکہ اگر تصویر نمازی کے سامنے ہو گی تو اس کے خیالات اور دھیان کہیں اور جا سکتے ہیں، جبکہ نماز میں نمازی کی کوشش ہوتی ہے کہ خشوع اور تعلق باللہ کی انتہا کو چھو لے، جیسے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : سیدہ عائشہ کے پاس ایک چادر تھی جو آپ نے اپنے گھر کی ایک جانب لٹکائی ہوئی تھی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں فرمایا: (اپنی چادر ہم سے دور کر لو؛ کیونکہ اس کی تصاویر مجھے نماز میں مشغول کرتی رہی ہیں۔) بخاری: (374) باب : تصویر والی جگہ میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (161211 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب