منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بوڑھے والدين كى خدمت كے ليے شادى نہ كرنا

سوال

ايك اكيس برس كى مسلمان لڑكى كے ليے افضل كيا ہے آيا وہ شادى كرے يا كہ اپنى زندگى بوڑے والدين كى خدمت كے ليے وقف كر دے، كيونكہ اس كے دونوں بھائى ابھى بہت چھوٹى عمر كے ہيں اور انہيں مالى اور تعليمى معاونت كى بھى ضرورت ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلاشك و شبہ والدين كى خدمت كرنا بہت بڑا اجر و ثواب كا كام ہے، اور جنت كے وسيع ترين دروازے ميں شامل ہوتا ہے.

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم سب سے افضل عمل كونسا ہے ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

نمازوں كى بروقت ادائيگى.

ميں نے عرض كيا: اس كے بعد پھر كونسا عمل ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

پھر والدين كى خدمت كرنا.

ميں نے عرض كيا: پھر كونسا عمل ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

اللہ كى راہ ميں جھاد كرنا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2782 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 85 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 145627 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

جب والدين كى اطاعت و فرمانبردارى سب سے زيادہ وسيع دروازہ اور اللہ سبحانہ و تعالى كى رضا و خوشنودى كا حصول ہے؛ تو بلاشك و شبہ عفت و عصمت يعنى اپنے آپ كو غلط كارى سے محفوظ ركھنا اور پاكباز بنانا بھى سب سے اہم چيز ہے جس كى آدمى كو حرص ركھنى اور كوشش كرنى چاہيے خاص كر جب وہ جوانى كى عمر ميں ہو اور پھر جہاں فتنہ و فساد بھى زيادہ پايا جائے، اور آدمى اپنے آپ كو فتنہ ميں پڑنے كا ڈر ركھے.

ظاہر تو يہى ہوتا ہے اور اس كا بہت تجربہ بھى ہے كہ جو سوال ميں بيان كيا گيا ہے وہ دونوں چيز آپس ميں تعارض نہيں ركھتيں؛ بلكہ دونوں كا اكٹھا كرنا ممكن ہے كہ انسان شادى بھى كرے اور والدين كى خدمت بھى.

لہذا والدين كى ضروريات پورى كرنا اور ان كى ديكھ بھال اور خدمت كرنا اور ان كے ساتھ صلہ رحمى اور بہتر سلوك كرنا اس بات كا محتاج نہيں كہ آپ اپنى زندگى ان كے ليے وقف كر ديں، اور پھر آپ تو جوانى كى عمر ميں ہيں؛ صرف يہ ديكھيں كہ آپ كے والدين كو كس چيز كى ضرورت ہے اگر انہيں آپ كى خدمت كى ضرورت ہے اور وہ خود اپنى ديكھ بھال نہيں كر سكتے اور آپ كے چھوٹے بھائى ان كى خدمت نہيں كر سكتے تو آپ سے مطلوب يہى ہے كہ آپ كوئى ايسا خاوند تلاش كريں جو آپ كو اپنے والدين كى خدمت كى اجازت دے.

آپ ايسا خاوند اختيار نہ كريں جو آپ كو آپ كے علاقے اور شہر سے كہيں اور لے جائے، بلكہ اس كے بدلے ايسا خاوند اختيار كريں جو اسى علاقے اور شہر كا رہنے والا ہو اور اس كا گھر آپ كے والدين كے گھر كے جتنا زيادہ قريب ہو يہ بہتر اور افضل ہے، تا كہ آپ آسانى سے اپنے والدين كى ضروريات كا خيال ركھ سكيں اور ان كى خدمت كر سكيں.

آپ ايسا خاوند اختيار كريں جو اخلاق حسنہ كا مالك ہو اور نرم طبيعت كا مالك ہو تا كہ آپ كى والدين كى خدمت ميں آپ كا ممد و معاون بن سكے اور آپ كو ايسا كرنے سے منع نہ كرے.

اس كے ساتھ ساتھ يہ بھى كہ اگرچہ والدين بڑى عمر كے ہيں ليكن اكثر طور پر روزانہ ان كے پاس جانے كى ضرورت نہيں ہو سكتى بلكہ آپ معاملات كو منظم و مرتب كريں تا كہ ان كا بہتر طريقہ سے خيال ركھا جا سكے.

بہر حال ہمارے خيال كے مطابق تو ان تفاصيل كو منظم اور مرتب كرنا ممكن ہے، اور ان شاء اللہ بہت آسان بھى ہے.

اور اگر انہيں مالى معاونت كى بھى ضرورت ہے يا آپ كے بھائيوں كو مالى معاونت كى ضرورت ہے، تو آپ بقدر استطاعت ان كى معاونت كر سكتى ہيں، اگر آپ ملازمت كرتى ہوں تو اپنى تنخواہ سے والدين اور بھائيوں كو كچھ رقم دے ديں، اور آپ كو حق ہے كہ اپنے خاوند سے شادى كے وقت شرط ركھيں كہ وہ آپ كو ملازمت كرنے سے نہيں روكےگا اور آپ كو اپنے والدين اور بھائيوں كى معاونت سے منع نہيں كريگا.

اور اگر فرض كريں كہ شادى كے بعد آپ كا اپنے والدين اور بھائيوں كا مالى تعاون كم ہو جاتا ہے، تو اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى ان كے ليے رزق كے دروازے كھول دے اور نعم البدل عطا فرما دے.

اور اگر وہ آپ كے چھوٹے بھائيوں كو تعليم نہيں دلوا سكتے چاہے آپ كى معاونت كے علاوہ كہيں اور سے بھى معاونت حاصل ہونے كے باوجود تعليم نہ دلوا سكيں تو ظاہر يہى ہوتا ہے  كہ آپ كى شادى اور آپ كا اپنے نفس كو عفت عصمت والا بنانا آپ كا اپنے بھائيوں كى تعليم ميں معاونت كرنے پر مقدم ہے آپ كا شادى كرانا افضل اولى اور بہتر ہے.

يہ علم ميں ركھيں كہ جب بندہ اپنے مسلمان بھائى كى مدد كرتا ہے تو اللہ سبحانہ و تعالى بھى اپنے بندے كى مدد فرماتا ہے، تو پھر جب آپ اپنے سگھے بھائيوں اور والدين كى مدد كرنے كا عزم ركھتى ہيں تو اللہ كى مدد ضرور شامل حال ہوگى.

ہمارا خيال نہيں بلكہ ہميں يقين ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى آپ كو اپنے فضل و كرم سے اپنے والدين كى خدمت كرنے كا موقع دےگا اور كبھى محروم نہيں كريگا، اور آپ كے ليے ہر مشكل اور تنگى سے آسانى پيدا فرمائيگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اور پرہيزگارى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كى راہ بنا ديتا ہے، اور اسے رزق بھى وہاں سے ديتا ہے جہاں سے اسے وہم و گمان بھى نہيں ہوتا اور جو كوئى بھى اللہ تعالى پر توكل اور بھروسہ كرتا ہے تو اللہ تعالى اس كے ليے كافى ہو جاتا ہے، يقينا اللہ تعالى اپنا كام پورا كر كے ہى رہےگا، اللہ تعالى نے ہر چيز كا ايك اندازہ مقرر كر ركھا ہے الطلاق ( 2 - 3 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب