سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

قضا روزے رکھتے ہوئے بھی فرض روزوں کی طرح رات کے حصے میں نیت کرنا ضروری ہے۔

سوال

مجھے علم نہیں تھا کہ جس لڑکی کو رمضان میں ماہواری کی وجہ سے  روزے چھوڑنے پڑے ہوں وہ نفل روزے رکھنے سے پہلے اپنے روزوں کی قضا دے، اسی لیے میں نے رمضان کے بعد نفلی روزے رکھنا شروع کر دئیے تھے، تو اب کیا میرے لیے جائز ہے کہ اپنی نیت تبدیل کر لوں اور جو نفلی روزے میں نے پہلے رکھ لیے ہیں ان کو میں قضا شمار کر لوں؟ نیز کیا روزے کے دوران بھی نیت تبدیل کرنا جائز ہے؟ یعنی اگر میں نے نفل روزہ رکھ لیا تو کیا پورے دن میں کسی بھی وقت نفل روزے کی نیت کو قضا کی نیت سے بدل سکتی ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو نفل روزے آپ نے رکھ لیے ہیں ان کی نیت رمضان کے روزوں کی قضا سے بدلنا صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ قضا روزے رکھتے ہوئے بھی رات کے حصے میں نیت کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ قضا کا بھی وہی طریقہ ہوتا ہے جو وقت پر روزے رکھنے کا ہوتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص فجر سے قبل روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں) ترمذی: (730) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے، نیز اس حدیث کے بعد امام ترمذی کہتے ہیں کہ: "اہل علم کے ہاں اس کا مفہوم یہ ہے کہ  جو شخص رمضان میں طلوعِ فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے، یا رمضان کے قضا روزے یا نذر کے روزے رکھتے ہوئے نیت نہ کرے ۔ لہذا اگر رات کے حصے میں روزے کی نیت نہیں کی تو کفایت نہیں کرے گا۔ تاہم نفل روزے کی نیت فجر کے بعد کی جا سکتی ہے ، یہ امام شافعی ، احمد اور اسحاق کا موقف ہے" ختم شد
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بات میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ رمضان، قضائے رمضان ، کفارہ، فدیہ اور اسی طرح کے دیگر واجب روزے  کی فجر کے بعد دن کے وقت نیت کرنا صحیح نہیں ہے، اس سے روزہ بھی صحیح نہیں ہو گا" ختم شد
"المجموع" (6/ 289) ، اسی طرح دیکھیں:  "المغنی" از ابن قدامہ(3/ 26)

نیز یہ بھی ہے کہ عبادت سے فراغت کے بعد نیت میں تبدیلی مؤثر نہیں ہوتی۔

اس بارے میں امام سیوطی رحمہ اللہ "الأشباه والنظائر" (ص37) میں کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص نماز سے فراغت کے بعد کہیں جا کر نماز کی نیت ختم کرے تو اس سے اس کی نماز باطل نہیں ہو گی، اس پر سب کا اجماع ہے، اور یہی حکم دیگر تمام عبادات کا ہے" ختم شد
لہذا جو روزے نفل روزوں کی نیت سے رکھے گئے ہیں وہ اب قضا روزوں کی جگہ نہیں لے سکتے۔

نیز یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص نفل روزہ رکھنا شروع کرے اور پھر اس کا ارادہ بنے کہ دن میں کسی وقت اس روزے کو قضا میں تبدیل کر لے تو اس طرح اس کے روزے کا ایک حصہ نفل ادا ہو چکا ہے، لہذا یہ روزہ کسی بھی واجب یا فرض روزے سے کفایت نہیں کرے گا؛ کیونکہ اس کی فرض روزے کی نیت پورے دن کو شامل نہیں تھی، اور اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے۔

نیز یہ بھی ہے کہ اس طرح کرنا مطلق روزے کو معین روزے کی نیت سے تبدیل کرنا ہے  جو کہ صحیح نہیں ہے۔

واللہ تعالی اعلم

مزید کے لیے ہم آپ کو سوال نمبر: (39689) کا جواب پڑھنے کا مشورہ دیں گے۔

ہم آپ کو مزید یہ بھی بتلانا چاہیں گے کہ جس پر رمضان کے روزے ہوں اس کے لیے نفل روزے رکھنا منع نہیں ہیں؛ جیسے کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، بلکہ راجح موقف یہی ہے کہ جو شخص نفل روزے رکھنا چاہتا ہے وہ نفل روزے رکھ لے چاہے اس پر کسی بھی قسم کے واجب روزے ہوں مثلاً: رمضان کی قضا وغیرہ کے تو ان کے ہوتے ہوئے بھی نفل روزے رکھنا صحیح ہے۔

لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے پاس نفل روزے رکھنے کے بعد اتنا وقت ہو کہ وہ آئندہ رمضان آنے سے پہلے سابقہ رمضان کے روزوں کی قضا دے سکے۔

البتہ صرف شوال کے روزے  رمضان کی قضا دینے سے پہلے رکھنا منع ہے، تاہم اس بارے میں بھی اہل علم کے درمیاں دو آرا موجود ہیں۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (41901) اور (39328) کے جوابات کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب