اول:
جب خالص سونا یا خالص چاندی نصاب کو پہنچ جائے، تو ان دونوں میں زکاۃ واجب ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اگر سونے یا چاندی میں ملاوٹ ہو، یا وہ خالص نہ ہو، تب بھی اگر اس میں شامل خالص سونا یا خالص چاندی نصاب کو پہنچ جائے، اور ایک سال گزر جائے، تو زکاۃ فرض ہو گی۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ بات کہی گئی کہ ’’سونا اور چاندی ملاوٹ والے نہ ہوں‘‘، تو یہ درست ہے، کیونکہ سونے یا چاندی میں جو چیز ملا دی گئی ہو جو سونا یا چاندی نہ ہو، اس پر زکاۃ کے احکام لاگو ہوتے ہیں، اور نہ اس میں زکاۃ واجب ہوتی ہے، اس لیے اس ملاوٹ شدہ حصے کو نظر انداز کر دیا جائے گا، اور صرف خالص سونے یا خالص چاندی پر زکاۃ واجب ہو گی، خواہ وہ چمکدار ہو یا میلا کچیلا، کیونکہ میلے کچیلے سونے پر بھی سونے کا اطلاق ہوتا ہے، اور میلی کچیلی چاندی پر بھی چاندی کا اطلاق ہوتا ہے۔‘‘ ختم شد
السيل الجرار، ص: 234۔
دوم:
خالص سونے یعنی 24 قیراط کی زکاۃ کا نصاب 85 گرام ہے، کیونکہ اس درجہ میں سونے کا خالص پن 1000 میں سے 999 ہوتا ہے، اور ماہرین کے مطابق یہ سونے کی اعلیٰ ترین خالص صورت سمجھی جاتی ہے۔
جہاں تک چاندی کا تعلق ہے: تو سوال نمبر (64) کے جواب میں گزر چکا ہے کہ خالص چاندی کا نصاب تقریباً 595 گرام ہے۔ جس شخص کے پاس اتنی مقدار کسی بھی صورت میں موجود ہو: چاہے وہ چاندی ہو، چاندی کی قیمت ہو، یا مالِ تجارت ہو، تو اس پر زکاۃ واجب ہو گی، بشرطیکہ ایک سال گزر چکا ہو۔
خالص چاندی اہلِ فن کے مطابق وہ ہے جس کا قیراط (1000) ہو۔
پس جب مال نصاب کو پہنچ جائے، چاہے وہ نقدی ہو (سونا یا چاندی)، خالص ہو یا ملاوٹ شدہ، یا مالِ تجارت، یا حصص وغیرہ کی صورت میں ہو، اور اس پر ایک سال گزر چکا ہو، تو اس میں زکاۃ واجب ہو گی۔
لہٰذا اصل اعتبار نصاب کو پہنچنے کا ہے، قیراط کا نہیں؛ کیونکہ ممکن ہے کہ سونا یا چاندی ملاوٹ کے باوجود نصاب کو پہنچ جائے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ خالص ہونے کے باوجود نصاب کو نہ پہنچے۔
آپ متعلقہ ماہرین سے خالص چاندی کے فی گرام نرخ معلوم کر کے نصاب کا حساب لگا سکتے ہیں، چنانچہ جب آپ کے مال کی قیمت خالص چاندی کے 595 گرام کی قیمت کو پہنچ جائے تو زکاۃ فرض ہو جائے گی۔
مزید تفصیل کے لیے سوال نمبر (145770) اور (19901) کے جوابات بھی ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم