الحمد للہ.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم صبح فجر کے وقت اپنے صحابہ کرام کو مسجد میں نماز پڑھاتے، اور پھر اپنی نماز کی جگہ پر ہی سورج طلوع ہونے تک بیٹھے رہتے تھے، اس دوران آپ کے صحابہ کرام بھی آپ کے ساتھ بیٹھتے، بسا اوقات گفتگو بھی کرتے اور دورِ جاہلیت کی یادیں تازہ کر کے ہنستے اور مسکراتے بھی تھے۔
نماز اشراق ادا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز اشراق کی چار رکعات ادا کرتے تھے، یا کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھ لیتے تھے، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اشراق کی چار رکعت نماز ادا کرتے تھے، اور کبھی اس سے زیادہ بھی پڑھ لیا کرتے تھے” اسے مسلم: (719) نے روایت کیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں جب ہوتے تو اپنے گھر والوں کے ساتھ ہاتھ بٹا دیا کرتے تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بکری کا دودھ نکال لیتے تھے، اپنے لباس کو ٹانکا بھی لگا لیتے تھے، اپنے کام خود کرتے، اپنی جوتی گانٹھ لیتے تھے، پھر جب نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے روانہ ہو جاتے اور لوگوں کو نماز پڑھاتے، پھر ان کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو فرماتے، انہیں دین کے احکامات سکھاتے، انہیں وعظ و نصیحت فرماتے، ان میں سے کسی کی کوئی شکایت وغیرہ ہوتی تو اسے بھی سنتے اور ان کی اصلاح بھی فرماتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم گھر واپس آ جاتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا: “آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں کیا کام کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی عام انسانوں کی طرح انسان تھے، آپ اپنے کپڑوں پر خود پیوند لگا لیتے تھے، اپنی بکری کا دودھ نکالتے اور اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے۔” اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ : (26194)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ : (671) صحیح قرار دیا ہے۔
مسند احمد ہی کی ایک اور روایت: (24903) میں ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے کپڑوں کو سلائی لگا لیتے، اپنی جوتی گانٹھ لیتے تھے، اور وہ سب کام کرتے تھے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ ) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع: (4937) میں صحیح قرار دیا ہے۔
امام بخاری: (676) میں اسود رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر میں کیا کرتے تھے؟ تو آپ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے گھر والوں کی خدمت کرتے تھے [یعنی گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹا دیتے تھے] اور پھر نماز کا وقت ہو جاتا تو نماز کے لیے چلے جاتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر اچھا لگا تو کھا لیا، وگرنہ خاموشی سے چھوڑ دیا۔
کبھی کبھار دو ، دو مہینے گھر میں کھجور اور پانی ہی دستیاب ہوتا تھا۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی کھانے میں عیب نہیں نکالا، اگر چاہا تو کھا لیا وگرنہ چھوڑ دیا۔ اس حدیث کو امام بخاری: (3563) اور مسلم : (2064) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: ” ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا دیکھتے، پھر تیسرا دیکھتے، اسی طرح دو ، دو مہینے گزر جاتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں(کھانا پکانے کے لئے)آگ نہ جلتی تھی۔ میں [عروہ بن زبیر رحمہ اللہ ] نے پوچھا: خالہ جان !پھر کھانے پینے میں کیا چیز ہوتی تھی؟ آپ نے بتلایا کہ : صرف دو چیزیں کھجور اور پانی۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے چند انصاری پڑوسی تھے۔ جن کے پاس دودھ دینے والی بکریاں تھیں اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں دودھ تحفہ کے طور پر پہنچا جایا کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس میں سے ہمیں پلایا کرتے تھے۔ ” اس حدیث کو امام بخاری: (2567) اور مسلم : (2972) نے روایت کیا ہے۔
احادیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کھانوں کی تفصیلات نہیں ملتیں ۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (115801) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور پہلے زمانے میں آج کل کے مسلمانوں کی طرح یہ عادت بھی نہیں ہوتی تھی کہ ہر روز ایک دن میں تین بار کھانا کھانا ہے، زیادہ سے زیادہ ان کے ہاں دو وقت کا کھانا ہوتا تھا، دن کے آغاز میں ، اور اسی کو “غدا” کہا جاتا تھا کیونکہ یہ دن کے آغاز میں کھایا جاتا تھا، اور دوسرا کھانا شام کا، جسے “عشا” کہتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب کبھی کسی ناگہانی صورت میں لوگوں کو اکٹھا کرنا چاہتے تھے منادی کو کہتے جو صدا لگاتا کہ: ” الصلاة جامعة “پھر جب لوگ جمع ہو جاتے تو جس موضوع پر گفتگو کے لیے لوگوں کو جمع کیا ہوتا اس پر خطاب فرماتے، چنانچہ اگر لوگوں کو کسی جنگی مہم کے لیے ارسال کرنا ہوتا تو اس کے لیے لوگوں کا انتخاب کر کے انہیں ارسال کر دیتے تھے، اور اگر انہیں عمومی نصیحت کرنی ہوتی تو نصیحت کر دیتے تھے، ایسے ہی اگر انہیں کسی شرعی حکم کے متعلق با خبر کرنا ہوتا تو انہیں شرعی حکم بتلا دیتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نصف النہار کے وقت قیلولہ بھی فرماتے تھے تا کہ رات کو قیام اللیل کرنا آسان ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (قیلولہ کیا کرو؛ کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔) اس حدیث کو طبرانی رحمہ اللہ نے معجم الاوسط : (28) میں روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (1647) میں حسن قرار دیا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی معیشت، معاش اور لین دین کے حال احوال دریافت کرنے کے لیے بازاروں میں بھی چلے جاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی مجلسوں میں بھی بیٹھتے تھے، اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے، اور اگر کسی نے خوشی کے موقع پر دعوت کا اہتمام کیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی دعوت بھی قبول فرما لیتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کمزور اور مساکین لوگوں کی مدد اور ہاتھ بٹانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمومی طور پر پورا دن ہی دینی اور مسلمانوں کے معاملات میں گزر جاتا تھا، آپ کہیں کسی کو دعوت دینے کے لیے جاتے تو کہیں کسی کو نصیحت اور یاد دہانی کے لیے ، تو کبھی شرعی معاملات کے لیے تو کبھی جہاد اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم تنگ دست کی اعانت کے لیے بھی تشریف لے جاتے تھے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار اناج کی ڈھیری کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ہاتھ اس میں ڈالا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو گیلا پن محسوس ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اناج کی ڈھیری والے یہ کیا ہے؟) تو اس نے بتلایا : یا رسول اللہ ! اس پر بارش ہو گئی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تو تم نے اسے اناج کے اوپر ہی کیوں نہیں رہنے دیا تا کہ لوگ اسے دیکھ لیں؟ جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں۔ ) اسے مسلم : (102) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سنن الکبری از امام بیہقی : (20851) میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ہمارے ساتھ بنی واقف کے صاحبِ بصیرت شخص کی طرف چلو ہم ان کی عیادت کر کے آتے ہیں۔) حالانکہ وہ صحابی نابینا تھے۔ اس حدیث کو البانیؒ نے سلسلہ صحیحہ : (521) میں صحیح قرار دیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم: ( کثرت سے ذکر کرتے تھے اور ضرورت سے زائد کلام کم ہی کرتے تھے۔ نماز لمبی پڑھتے تھے اور خطبہ مختصر رکھتے تھے۔ اور اس بات سے عزت میں کمی محسوس نہ فرماتے تھے کہ کسی بیوہ خاتون اور مسکین شخص کے ساتھ جا کر اس کا کام کر دیں۔) اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ : (1414)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے “صحیح سنن نسائی” میں صحیح قرار دیا ہے۔
جس وقت رات ہو جاتی اور لوگوں کو عشا کی نماز پڑھا دیتے تو اگر مسلمانوں کے معاملات میں سے کسی اہم معاملے پر مشاورت کرنی ہوتی تو کبار صحابہ کرام کے ساتھ گفتگو کرتے تھے، وگرنہ اپنے گھر والوں کے ساتھ کچھ دیر بات چیت کر کے آرام فرماتے تھے۔
جیسے کہ ایک حدیث جسے امام احمد: (178) اور ترمذی: (169) نے روایت کیا ہے اور اسے امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : “آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے وقت سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسلمانوں کے امور پر گفتگو فرماتے تھے اور میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تھا۔” اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن اخلاق کا حصہ تھا کہ آپ کسی کے ساتھ بھی رہتے تو حسن معاشرت کا پیکر بن کر، آپ ہمیشہ مسکراتے تھے، اپنے اہل خانہ کے ساتھ دل لگی بھی کرتے، ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرتے، ان پر حسب استطاعت کھل کر خرچ کرتے، اور اپنی بیویوں کے ساتھ ہنسی مزاح بھی کرتے تھے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام بیویاں ہر رات اس سوتن کے گھر میں جمع ہوتیں جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات گزارتے ، تو بسا اوقات سب کے ساتھ مل کر رات کا کھانا بھی کھاتے، اور پھر ہر بیوی اپنے اپنے گھر چلی جاتی، اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم باری والی بیوی کے ہمراہ ایک ہی لحاف میں سوتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اوپر والی چادر اتار دیتے تھے صرف تہہ بند کے ساتھ آرام فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب عشا کی نماز پڑھ کر اپنے گھر آتے تو سونے سے پہلے اپنے گھر والوں کے ساتھ تھوڑی دیر گفتگو فرماتے، اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اگر بیوی نے کوئی دل کی بات کرنی ہو تو کر لے۔” ختم شد
تفسیر ابن کثیر: (2/242)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ رات کے ابتدائی حصے میں آرام فرماتے تھے، پھر رات کو قیام اللیل کے لیے بیدار ہوتے ، اور پھر اللہ تعالی جتنی توفیق دیتا آپ نماز ادا کرتے، پھر جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ فجر کی اذان دیتے تو فجر کی دو رکعات ادا کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھانے کے لیے مسجد تشریف لے جاتے تھے۔
سنن ابو داود: (56) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: “نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے وضو کا پانی اور مسواک رکھی جاتی تھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کو بیدار ہوتے تھے قضائے حاجت فرماتے اور پھر مسواک کرتے تھے۔”
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: “میں ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہ گیا ۔ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی بیوی ( میمونہ رضی اللہ عنہا ) کے ساتھ تھوڑی دیر تک بات چیت کی ، پھر سو گئے ۔ جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف نظر کی اور یہ آیت تلاوت کی إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الأَلْبَابِ ” بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور دن و رات کے مختلف ہونے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ “ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے اور وضو کیا اور مسواک کی ، پھر گیارہ رکعتیں ادا کیں۔ اور جب سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ( فجر کی ) اذان دی تو آپ نے دو رکعت ( فجر کی سنت ) پڑھی اور باہر مسجد میں تشریف لائے اور فجر کی نماز پڑھائی ۔” اس حدیث کو امام بخاری: (4569) اور مسلم : (763) نے روایت کیا ہے۔
تو مجموعی طور پر:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی میں کوئی مروجہ مفہوم کے مطابق مخصوص اور مرتب شیڈول نہیں تھا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے روزہ مرہ کے امور با مقصد ہوتے تھے، اور کوئی بھی کام با برکت امور سے خالی نہیں ہوتا، جیسے کہ اللہ تعالی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ترجمہ: کہہ دیں: یقیناً میری نماز، اور میری عبادت، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔ [الانعام: 162]
تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت اللہ تعالی کے احکامات اور شریعت کی حقیقی عملی شکل تھی، جیسے کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا :
صحیح مسلم : (746) میں روایت ہے کہ سیدنا سعد بن ہشام بن عامر کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا:
“ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اخلاق کے متعلق بتلائیے؟
تو انہوں نے کہا: کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے؟
میں نے کہا: کیوں نہیں بالکل پڑھتا ہوں!!
تو انہوں نے کہا: یقیناً نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا اخلاق قرآن تھا”
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا کھانے پینے کا طریقہ جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (6503)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا سونے کا طریقہ جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (21216)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا خرید و فروخت کا طریقہ جاننے کے لیے آپ سوال نمبر: (134621)
واللہ اعلم