اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مردوں كے ليے كڑے پہننا

1980

تاریخ اشاعت : 05-01-2008

مشاہدات : 7645

سوال

كيا مردوں كے ليے كڑے يا چوڑياں اور كنگن يا بالياں پہننا جائز ہيں، كچھ لوگ اس كے جواز كے قائل ہے، كيونكہ دور جاہليت ميں قريش ايسا كيا كرتے تھے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

كانٹے، بالياں، اور چوڑياں يا كنگن اور كڑے وغيرہ پہننا عورتوں كا زيور ہے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كى مشابہت كرنے والے مردوں، اور مردوں كى مشابہت كرنے والى عورتوں پر لعنت كى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5435 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورت كا لباس پہننے والے مرد اور مرد كا لباس پہننے والى عورت پر لعنت فرمائى "

اسے ابو داود نے كتاب اللباس باب فى لباس النساء ميں روايت كيا ہے.

اس بنا پر مرد كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنے كانوں ميں كانٹے يا بالياں پہنے، يا اپنے ناك ميں كچھ پہنے، اور جو شخص اسے جائز قرار دے كر اس كى دليل يہ دے كہ قبيلہ قريش كے افراد دور جاہليت ميں پہنا كرتے تھے، اس كو چاہيے كہ وہ اس دليل كو ثابت كر كے دكھائے كہ يہ كہاں ہے ؟

دوم:

اگر وہ دور جاہليت ميں ايسا كرتے تھے، تو اسلام نے آ كر مرد كے ليے عورت كے زيورات پہننے سے منع كر ديا ہے، اور مرد كو عورت كى مشابہت كرنے سے بھى منع كيا ہے، جيسا كہ اوپر كى احاديث ميں بيان ہو چكا ہے، اس ليے معتبر تو شريعتا سلاميہ كا حكم ہو گا، نہ كہ دور جاہليت ميں قريش وغيرہ كا فعل.

سوم:

قريش وغيرہ كے ہاں عورتوں ميں جو زيور معروف تھا وہ كانوں ميں بالياں، اور ہاتھوں ميں كنگن اور چوڑياں، اور پاؤں ميں پازيب اور بازوں ميں بازوبند پہنتى تھيں، شاہد يہ ہے كہ قديم دور سے ہى عورت كے زيورات ميں يہ اشياء معروف تھيں.

چہارم:

شريعت اسلاميہ نے مرد كے ليے چاندى كى انگھوٹھى مباح كر كے اسے باقى زيور سے مستغنى كر ديا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے.

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے چاندى كى انگوٹھى بنوائى تو لوگوں نے بھى چاندى كى انگوٹھياں بنوا ليں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5417 ).

اور شريعت اسلاميہ نے مردوں كے ليے دانتوں اور ناك وغيرہ ميں بطور بدل سونا اور چاندى كے دانت اور ناك بنوانے كى رخصت دى ہے.

پنجم:

ہم يہ كہينگے كہ: جو مسلمان مرد بھى چھلا يا كڑے وغيرہ پہنے گا وہ اس ميں كفار سے مشابہت كر رہا ہے، كيونكہ ان ايام ميں يہ چيز كفار كے ہاں معروف ہے، اور ان كى عادت ميں شامل ہے كہ وہ اپنے كانوں اور ہونٹ اور رخسار اور چہرے كے كنارے، اور جسم كے دوسرے حصوں ميں پہنتے ہيں.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى كسى قوم سے مشابہت اختيار كى وہ انہى ميں سے ہے "

اسےابو داود نے سنن ابو داود ميں كتاب اللباس باب فى لباس الشہرۃ ميں ذكر كيا ہے.

اس ليے جو شخص بھى ايسا كرے اسے اللہ كے ہاں توبہ كرنى چاہيے، اور وہ باطل كے ساتھ جھگڑا اور بحث مت كرے، اور اسے اپنى شخصيت اور لباس كو كفار سے ممتاز كرتے ہوئے ان كى مشابہت نہيں كرنى چاہيے، جيسا كہ ہمارى شريعت ہميں حكم ديتى ہے، اللہ تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد