اتوار 23 جمادی اولی 1446 - 24 نومبر 2024
اردو

بلغم اور کنکری نگلنے کے درمیان فرق، اور روزے پر انکا اثر

208210

تاریخ اشاعت : 30-06-2014

مشاہدات : 10748

سوال

 آپ نے فتوی نمبر: (12597) میں ذکر کیا ہے کہ بلغم نگلنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا؛ کیونکہ یہ کھانے پینے میں شمار نہیں ہوتا، لیکن آپ نے فتوی نمبر: (78479) میں ذکر کیا ہے کہ کسی بھی چیز کو نگلنے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے، چاہے کوئی کھانے پینے کی چیز ہو یا کچھ اور، حتی کہ نقدی نوٹ نگلنے سے بھی روزہ ٹوٹ جائے گا، اس بارے میں میں بہت حیران ہوں۔
اور ناک کی جانب سے آنے والے ریٹھ یا بلغم کو جان بوجھ کر نگلنے کا کیا حکم ہے، کیا اس سے بھی روزہ فاسد ہوجائے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم کے صحیح ترین موقف کے مطابق راجح یہی ہے کہ ریٹھ نگلنے سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، جیسے کہ فتوی نمبر: (172499) میں تفصیل گزر چکی ہے، یہ حکم اس بات کے منافی نہیں ہے کہ روزہ کسی بھی چیز کے نگلنے سے فاسد ہوجائے گا، چاہے کنکری کی طرح کھانے پینے کی چیز نہ بھی ہو۔

چنانچہ " الحاوی الكبير " (3 /456) میں ہے کہ :

"شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: اور اگر کنکری نگل لے یا ایسی چیز کھا لے جو کھانے کی نہیں ہے، یا حقنہ لے، یا زخم پر دوائی لگاتے ہوئے پیٹ کے اندر چلی جائے، یا ناک کے ذریعے ڈالے گئے قطرے اس کے دماغ تک پہنچ گئے، تو روزہ یاد ہونے کی صورت میں ان سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اگر بھول کر یہ کام کر بیٹھے تو پھر کچھ نہیں ہوگا"

ماوردی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یہ صحیح ہے کہ اگر جان بوجھ کر ، روزہ یاد ہوتے ہوئے بھی کھانے پینے کی کوئی چیز نگل لے یا درہم ، کنکری جیسی کوئی چیز نگل لے جو کھانے پینے کے قابل نہیں ہوتی ، یا اخروٹ و بادام نگل جائے تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا، اور اس پر قضا واجب ہوگی، اور اگر بھول کر نگل جائے تو اسکا روزہ ٹھیک ہوگا"انتہی

اس مسئلے کا تفصیلی بیان پہلے فتوی نمبر: (78479) میں گزر چکا ہے۔

دونوں فتاوی میں تعارض نہیں ہے، کیونکہ بلغم بدن کے اندر سے تعلق رکھتا ہے، اور یہ انسانی جسم میں شامل ہے، چنانچہ اگر کوئی انسان بلغم نگل جاتا ہے تو اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاتا کہ اس نے کوئی بیرونی چیز نگلی ہے، لیکن کنکری وغیرہ کا معاملہ ایسا نہیں ہے، چنانچہ جو شخص کنکری منہ میں لے لے اور اسے نگل جائے تو ایسا شخص بیرونی چیز کھانے کی وجہ سے روزہ توڑ بیٹھے گا۔

ابن حبیب کہتے ہیں: "جس شخص نے اپنے حلق سے بلغم کھینچ کر نگل لیا، یا زبان کے کنارے تک پہنچنے کے بعد نگلا، اگرچہ یہ اچھی بات نہیں ہے لیکن پھر بھی اس شخص پر کچھ نہیں ، ؛ کیونکہ بلغم نا تو کھانا ہے، اور نہ ہی پینے کی چیز ہے، اور بلغم سر کی جانب سے آتاہے"

الباجی کہتے ہیں: ابن حبیب کے موقف کی توجیہ یہ ہے کہ: بلغم نگلنے والے شخص نے بلغم زمین سے نہیں لیا، بلکہ اس کے منہ میں بلغم عموما جمع ہو ہی جاتا ہے، جیسے کہ تھوک جمع ہوتا ہے، لیکن بلغم نگلنا مکروہ ہے، کیونکہ اسے تھوک کر اپنے آپ سے جدا کیا جاسکتا ہے، جبکہ لعاب کیساتھ ایسے نہیں کرسکتے"انتہی

"التاج والإكليل" (2/426)

شیخ محمد حسن دَدُو شنقیطی کہتے ہیں:

"جو کچھ میں منہ میں ہو وہ راجح قول کے مطابق جسم ہی کا حصہ ہوتا ہے، اس لئے اس وقت تک نجس نہیں ہوگا جب تک منہ سے باہر نہ آجائے، چنانچہ جس چیز کو انسان نے اپنے منہ میں باہر سے نہیں ڈالا بلکہ اس کے منہ میں اسکے جسم کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہے تو اس کے بارے میں راجح یہی ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، چنانچہ تھوک، اور بلغم وغیرہ جسم کے اندر سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے ان سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، کیونکہ اسے باہر سے حاصلی کی گئی غذا نہیں کہاجا سکتا، یہی موقف راجح ہے"انتہی

اور ایسا بلغم جو ناک میں ہو، اسے کوئی کھینچ کر منہ تک لے جائے اور نگل لے تو صحیح موقف کے مطابق اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، جیسے کہ " تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق " (1 / 324) میں ہے کہ :

"اور اگر ناک سے بلغم کھینچ کر منہ میں لے جائے، اور پھر جان بوجھ کر نگل جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا"انتہی

اور ایسے ہی " البحر الرائق شرح كنز الدقائق " (2 / 294) میں ہے کہ:

"روزے دار کے سر سے بلغم ناک میں آجائے، اور پھر روزہ دار ناک سے حلق میں جان بوجھ کر لے جائے تو اس پر کچھ نہیں ہوگا؛ کیونکہ یہ بلغم اسکے تھوک کی طرح ہے، ہاں اگر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر دوبارہ پھر منہ میں لے جائے تو اس صورت میں قضا دینا ہوگی، [فتاوی] ظہیریہ میں ہے کہ : بلغم اور تھوک منہ یا ناک سے نکل آئے اور پھر واپس لے جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا"انتہی

پہلے یہ بات گزر چکی ہے کہ: "بلغم" سے عام طور پر کراہت کی جاتی ہے، اس لئے بلغم باہر تھوکنے کے امکان کے وقت نگلنا درست نہیں ہے۔

متعدد اہل علم نے ایسے علمائے کرام کے اختلاف کا خیال کرنے کی صراحت کی ہے کہ جو بلغم نگلنے کی صورت میں روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں، کیونکہ بلغم تھوکتے ہوئے کوئی مشقت نہیں اٹھانی پڑتی۔

چنانچہ علامہ شرنبلالی حنفی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کتاب: "الحجہ" میں ہے کہ: ابراہیم سے بلغم نگل جانے والے شخص کے بارے میں پوچھا گیا۔

تو انہوں نے کہا: اگر منہ بھر نہ ہو تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اس پر اجماع ہے، [یعنی احناف کا اجماع ہے]

اور اگر منہ بھر کر ہو تو ابو یوسف کے ہاں ٹوٹ جائے گا، جبکہ ابو حنیفہ کے ہاں نہیں ٹوٹے گا۔

مناسب یہی ہے کہ بلغم باہر تھوک دیا جائے تا کہ کہیں روزہ امام شافعی کے مطابق فاسد ہی نہ ہوجائے؛ جیسے کہ علامہ ابن شحنہ نے اس بارےمیں متنبہ بھی کیا ہے، تاکہ بالاتفاق روزہ درست ہو، کیونکہ روزہ دار بلغم تھوک سکتا ہے"انتہی

"مراقی الفلاح شرح نور الإيضاح" (246)

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب