جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

توبہ کرنے کے بعد حرام مال سے خلاصی پانے کے احکامات

سوال

میں نے توبہ کرنے کے بعد حرام مال سے خلاصی پانے کے حوالے سے متعدد فتاوی پڑھے ہیں لیکن مجھے اس کا صحیح طریقہ سمجھ میں نہیں آیا؛ کیونکہ کچھ کہتے ہیں کہ اصل مالک کو واپس پہنچائیں، اور کچھ کہتے ہیں کہ آپ اپنے استعمال میں لے آئیں، تو کیا حرام ذرائع سے کمائے گئے مال اور دیگر دولت میں کوئی فرق ہے؟ نیز بتلائیں کہ اس بارے میں صحیح ترین موقف کیا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حرام مال کی متعدد صورتیں اور حالتیں ہیں؛ کیونکہ حرام مال بسا اوقات لذاتہ حرام ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ ذاتی طور پر تو حرام نہیں ہوتا لیکن اس کے کمانے کا طریقہ حرام ہوتا ہے۔ اب جس کو کمانے کا طریقہ حرام تھا، وہ مال اس کے مالک کی رضا مندی سے لیا گیا یا اس کی مرضی کے بغیر لیا گیا۔ پھر اسی طرح حرام طریقے سے کمانے والے کو اس طریقے کی حرمت کا علم تھا یا نہیں تھا، یا علم تو تھا لیکن وہ اس کی تاویل کرتا تھا، تو اس طرح ہر صورت کا حکم الگ ہو گا۔

اول:

کسی نے کوئی مال محرم لذاتہ حاصل کیا، یا کوئی بھی ایسی چیز حاصل کی جس کی خرید و فروخت منع ہے یا اسے اپنے پاس رکھنا یا پالنا یا استعمال کرنا منع ہے: ان طریقوں میں سے کوئی بھی طریقہ اپنایا گیا تو یہ مال اس کے مالک کو واپس نہیں کیا جائے گا، نہ ہی وہ خود اسے اپنے پاس رکھے گا، بلکہ اس چیز کو تلف کرنا لازم ہے، وہ اس چیز سے کسی بھی طرح فائدہ نہیں اٹھا سکتا کہ بیچ دے، یا خرید لے یا تحفہ دے دے، یا اپنے پاس ہی رکھ لے یا کسی بھی اور صورت میں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

محرم لذاتہ مال سے مراد ہر وہ چیز ہے جو بذات خود حرام ہو، مثلاً: شراب، بت، اور خنزیر وغیرہ

دوم:

جس نے کسی کا مال مالک کی رضا مندی کے بغیر اور ناحق حاصل کیا، جیسے کہ چوری شدہ مال، غصب شدہ مال ، عوامی مال سے بدعنوانی کے ذریعے حاصل کیا گیا مال، دھوکے اور ملاوٹ سے حاصل کیا گیا مال، سود کہ جسے مقروض شخص مجبورا ادا کرتا ہے، اسی طرح اپنے حق کے حصول کے لیے ادا کی جانے والی رشوت وغیرہ تو ان تمام صورتوں میں اصل مالکوں تک مال واپس کرنا لازم ہے، انسان اس کے بغیر بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔

اور اگر وہ اس چیز کو خرچ کر لے، یا اس میں تبدیلیاں رونما کر دے تو وہ چیز اس کے ذمہ قرض ہے تا آں کہ اس کے مالک کو واپس کرے۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر حاصل کردہ مال اس کے مالک کی رضا مندی کے بغیر حاصل کیا گیا ہے، اور مالک نے اس کا عوض بھی نہیں لیا تو: یہ مال اصل مالک کو پورے کا پورا واپس کیا جائے گا، اور اگر واپس کرنا مشکل ہو تو پھر اصل مالک کے قرض کی ادائیگی میں خرچ کر دے، اور اگر یہ بھی مشکل ہو تو اصل مالک کے وارثوں کو تھما دے، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو اصل مالک کی طرف سے صدقہ کر دے۔

تو اگر کل قیامت کے دن اصل مالک نے صدقے کے ثواب کو پسند کر لیا تو ادا ہو جائے گا، اور اگر اصل مالک نے صدقے کا ثواب لینے سے انکار کر دیا اور قابض شخص کی نیکیاں ہی لینے پر اصرار کیا تو مقبوضہ مال کی مقدار کے برابر اس کی نیکیاں اصل مالک کو دے دی جائیں گی، اور صدقہ کرنے کا ثواب اسی کو مل جائے گا۔ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔" ختم شد
"زاد المعاد " (5/690)

سوم:
اگر کوئی شخص حرام دولت کسی حرام طریقے سے کمائے؛ اس وجہ سے کہ اسے اس حرام طریقے کی حرمت کا علم نہیں ہے، یا وہ اپنے کسی معتمد اہل علم کے فتوے پر عمل کرتے ہوئے اسے جائز سمجھتا ہے تو اس پر کچھ بھی لازم نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ جیسے ہی اسے اس کی حرمت کا علم ہو تو اس کام سے رک جائے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت آ گئی اور وہ [حرام دولت سے ] رک گیا تو ماضی میں جو کچھ کمایا اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں جس موقف کے بارے میں ذرا بھی شک نہیں ہے وہ یہ ہے کہ: جو دولت اس نے کسی تاویل، یا لا علمی کی وجہ سے کمائی ہے تو یہاں ماضی کی کمائی ہوئی دولت اسی کی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، اس پر کتاب و سنت سمیت صحیح قیاس کی روشنی میں دلائل موجود ہیں۔" ختم شد
"تفسير آيات أشكلت على كثير من العلماء" (2/592)

آپ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں:
"ایسا مال جو کسی شخص نے ایسے طریقے سے کمایا ہے جس کے صحیح ہونے یا نہ ہونے میں علمائے امت کا اختلاف ہے ، اور کمانے والا شخص اس طریقے کے لیے تاویل کا قائل ہو، یا اپنے ذاتی اجتہاد کی وجہ سے جواز کا قائل ہو، یا کسی کی تقلید کرتے ہوئے جائز سمجھتا ہو، یا اس طریقے کو کچھ اہل علم کی جانب سے اپنانے پر اس نے بھی اپنا لیا ہو، یا کسی عالم دین نے اسے جواز کا فتوی دیا ہو وغیرہ جیسی صورت حال میں جو دولت بھی اس طریقے سے کمائی ہے اس پر لازم نہیں ہے کہ اس دولت سے خلاصی حاصل کرے چاہے اسے بعد میں معلوم ہو کہ اختیار کیا گیا طریقہ غلط تھا، اور جس نے جواز کا فتوی دیا تھا اس نے غلطی کی تھی۔۔۔

کیونکہ کوئی بھی ایسا مسلمان جو خرید و فروخت اور اجرت وغیرہ سے متعلق اپنے فعل کے جائز ہونے کا نظریہ رکھتا ہو اور اس طریقے سے کچھ دولت بھی کمائے اور بعد میں پتہ چلے کہ اس کا موقف غلط تھا اور صحیح موقف یہ تھا کہ یہ طریقہ کار حرام ہے تو اب پہلے کمائے گئے مال کو وہ استعمال کر سکتے ہیں، ان پر حرام نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (29/443)

انہوں نے مزید کہا کہ: "اگر کسی شخص نے کوئی کام کیا اور اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ کام حرام ہے، پھر بعد میں اسے معلوم ہوا کہ یہ کام حرام تھا تو اسے سزا نہیں دی جائے گی، اور اسی طرح اگر کسی کے ساتھ اس نے سودی لین دین کیا اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ سودی لین دین جائز ہے، پھر اس نے سود وصول بھی کیا اور بعد میں اسے اللہ تعالی کی نصیحت پہنچی اور وہ سودی لین دین سے رک گیا تو ماضی کا وصول کردہ سود اسی کا ہے۔" ختم شد
"تفسير آيات أشكلت على كثير من العلماء" (2/578)

ایسے ہی دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (15/46)میں ہے کہ:
"آپ جتنی مدت بینک میں ملازمت کے لیے رہے ہیں : اس کے بارے میں ہمیں اللہ تعالی سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کا وہ گناہ معاف فرمائے گا، پھر ماضی میں دوران ملازمت آپ نے جتنی بھی بینک سے تنخواہیں وصول کر کے بیلنس بنایا ، تو اگر آپ کو سود کے حکم کا علم نہیں تھا تو اس میں آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔"
ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اسے معلوم نہیں ہے کہ یہ حرام ہے، تو اس نے پہلے جو کچھ وصول کیا ہوا ہے وہ اسی کا ہے اور اس پر کوئی گناہ نہیں ہے، اور اگر اس نے کسی عالم کے فتوے کے دھوکے میں آ کر یہ سمجھا کہ یہ کام حرام نہیں ہے تو تب بھی اس مال کو اپنے بیلنس سے جدا نہیں کرے گا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے: فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت آ گئی اور وہ [حرام دولت سے ] رک گیا تو ماضی میں جو کچھ کمایا اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275] "ختم شد
"اللقاء الشهري" (67/ 19)

چہارم:
اگر کوئی شخص حرام مال جانتے بوجھتے ہوئے کماتا ہے اور مالک کی رضا مندی اور اجازت سے وصول کرتا ہے، مثال کے طور پر: غیر شرعی بیوع سے حاصل کردہ مال، حرام ملازمتوں سے حاصل کردہ تنخواہیں، یا حرام چیزوں کی خرید و فروخت کر کے نفع کمانا، یا حرام خدمات فراہم کر کے مال کمانا مثلاً: جھوٹی گواہی دینا، سودی معاہدہ لکھنے کی اجرت لینا ۔ یا رشوت لینا تا کہ دینے والا اپنا حق وصول کر سکے، یا جوے ، لاٹری اور کہانت کے ذریعے کمایا گیا مال وغیرہ ۔۔۔۔ تو اس کے بارے میں یہ ہے کہ: اس مال کو کمانے کا طریقہ غلط ہے جسے { محرم لكسبه} کہتے ہیں، یہ مال اس کے اصل مالک کو واپس کرنا لازم نہیں ہے، یہ اہل علم کا صحیح اور راجح ترین قول ہے۔

چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر وصول کردہ مال ادائیگی کرنے والے کی رضا مندی سے وصول کیا تھا، اور ادا کنندہ نے وصول کنندہ سے حرام عوض مکمل وصول کر لیا ، مثلاً: کسی سے شراب یا خنزیر خرید لیا، یا زنا اور بے حیائی کا کام کیا تو پھر ایسی صورت میں ادا کنندہ کو رقم واپس کرنا واجب نہیں ہے؛ کیونکہ ادا کنندہ نے یہ رقم اپنی مکمل مرضی سے ادا کی تھی اور اس سے حرام عوض پورا لے لیا تھا، اس لیے اب رقم واپس کر کے عوض [مبیع] اور معوض [قیمت] دونوں ادا کنندہ کے پاس جمع کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس طرح تو وہ مزید گناہ اور جارحیت والے کام کرے گا اور گناہگاروں کے لیے گناہ کرنا مزید آسان ہو جائے گا۔
اسی طرح اگر زانی اور بے حیائی والا کام کرنے والا یہ جان لے کہ وہ اپنا مذموم ہدف بھی پورا کر لے اور پیسے بھی واپس مل جائیں گے!! تو ایسی چیزوں سے شریعت کو محفوظ کیا جاتا ہے ایسی بات کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔" ختم شد
" زاد المعاد " (5/691)

جبکہ اکثر علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ ایسے حرام طریقے سے کمائے گئے مال کو غریبوں ، مسکینوں میں تقسیم کر کے یا رفاہِ عامہ کے منصوبوں وغیرہ میں لگا کر اس سے خلاصی پانا لازم ہے، اور اگر اس مال کو اپنے کسی ذاتی مفاد میں استعمال کر لے تو یہ اس کے ذمہ قرض رہے گا، اور اس قرض کو جب بھی مہلت ملے صدقے کی صورت میں اتارنا لازم ہو گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص کسی حرام چیز کے بدلے معاوضہ لے، یا کسی حرام خدمت کے عوض معاوضہ لے، مثلاً: شراب اٹھانے کی اجرت، یا صلیب بنانے کی اجرت، یا جسم فروشی کی اجرت وغیرہ تو اس رقم کو صدقہ کر دے، اور حرام کام سے توبہ کرے، حرام ذریعے سے حاصل کردہ رقم کو صدقہ کرنا اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے گا؛ صدقہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ اس رقم کو اپنے ذاتی مفاد میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ معاوضہ حرام کام کے عوض میں ہے اور یہ ادا کنندہ کو واپس کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ادا کنندہ نے اس کے بدلے میں حرام چیز یا حرام خدمت پوری لے لی ہے، اس لیے وصول کنندہ پر لازم ہے کہ اس رقم کو صدقہ کر دے۔ علمائے کرام میں سے متعدد اہل علم نے صراحت کے ساتھ یہ موقف بیان کیا ہے جیسے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے شراب اٹھانے والے کے بارے میں فرمایا ہے اور امام مالک اور دیگر اہل علم کے شاگردوں نے یہ وضاحت کی ہے۔" ختم شد
"مجموع الفتاوى" (22/142)

ایسے ہی " الاختيار لتعليل المختار " (3/61) میں ہے کہ:
"ملکیت میں آئی ہوئی حرام چیز کو صدقہ کرنے کا ہی راستہ باقی بچتا ہے۔" ختم شد

ایسے ہی دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (14/32)میں ہے:
"جس وقت اس نے حرام کے ذریعے کمائی کی وہ جانتا تھا کہ یہ حرام ہے، تو پھر وہ مال توبہ کے ساتھ بھی اس کے لیے حلال نہیں ہو گا، بلکہ اس پر کمائے ہوئے حرام مال کو صدقہ کرنا لازم ہے کہ اس مال کو رفاہِ عامہ کے کاموں میں لگا دے۔" ختم شد

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر اسے پتہ تھا کہ یہ کام حرام ہے تو پھر سود سے خلاصی پانے کے لیے صدقہ کر دے، یا مسجد بنوا دے، یا سڑک بنوا دے، یا اسی طرح کا کوئی اور کام کروا دے۔" ختم شد
"اللقاء الشهري" (67/ 19)

ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حوالے سے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ اگر تو وہ خود غریب ہے تو وہ اس حرام کمائے ہوئے مال میں سے اپنی ضرورت کے مطابق لے لے ، چنانچہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس سے خلاصی پانے کا طریقہ کار اور توبہ کی تکمیل اس طرح ہو گی کہ اس سارے مال کو صدقہ کر دے، لیکن اگر اسے خود مال کی ضرورت ہو تو اپنی ضرورت کے بقدر اس میں سے لے لے اور باقی کو صدقہ کر دے، تو یہ ہر حرام کمائی کا حکم ہے ؛ کیونکہ یہ حرام کام کے عوض میں کمائی گئی ہے چاہے وہ عوض کوئی چیز ہو یا خدمت ہو۔" ختم شد
" زاد المعاد " (5/691)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے ایک اور قول میں اس بات کی طرف مائل ہوتے نظر آتے ہیں کہ اگر وصول کنندہ توبہ تائب ہو چکا ہے تو پھر خود بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے ضروری نہیں ہے کہ اس کو صدقہ میں ہی دے۔

آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر حرمت کا علم تھا تو پھر یہاں مزید غور و فکر کی ضرورت ہے؛ کیونکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ : جس نے شراب بیچ کر نفع کمایا حالانکہ اسے شراب کی فروختگی کی حرمت کا حکم تھا تو وہ ماضی میں کمائے ہوئے نفع سے استفادہ کر سکتا ہے۔

اسی طرح کوئی بھی شخص جس نے حرام مال گاہک کی رضا مندی سے کمایا تو اگر وہ توبہ تائب ہو جائے سابقہ کمائے ہوئے نفع سے استفادہ کر سکتا ہے، اسی طرح جسم فروشی اور کہانت کے عوض کمائے ہوئے مال کے بارے میں بھی یہی بات ہے۔

اور یہ موقف شرعی اصولوں سے دور بھی نہیں ہے؛ کیونکہ شریعت نے توبہ تائب ہونے والے اور توبہ نہ کرنے والوں میں تفریق کی ہے جیسے کہ فرمانِ باری تعالی میں ہے کہ:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت آ گئی اور وہ [حرام کمائی سے ] رک گیا تو ماضی میں جو کچھ کمایا اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275]

اسی طرح فرمایا:
قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ
ترجمہ: کہہ دیجیے کفر کرنے والوں کو: اگر وہ رک جائیں تو ان کے ماضی کے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔[الانفال: 38] ۔۔۔

اس موقف کو مزید تائید اس بات سے بھی ملتی ہے کہ سب متفقہ طور پر مال کو ضائع اور تلف کرنے کے قائل نہیں ہیں، بلکہ یا تو اسے صدقہ کیا جائے گا اور یا پھر زانی اور شراب نوش کو واپس دیا جائے گا جس سے یہ رقم لی گئی تھی حالانکہ وہ زنا یا شراب نوشی پر مصر بھی ہے، اور یا پھر اس توبہ تائب وصول کنندہ کے پاس رہنے دیا جائے گا۔

اب اگر کوئی کہے کہ دوسری صورت پر عمل کرتے ہوئے زانی اور شراب نوش کو واپس دیا جائے تو یہ کوئی بھی عقل مند نہیں کہے گا؛ اگرچہ بعض فقہائے کرام نے یہ کہا بھی ہے، لیکن اس موقف میں انتہائی زیادہ خرابی ہے۔۔۔
جبکہ صدقہ کرنے کا موقف سب سے وجیہ موقف ہے۔

لیکن یہ کہا جائے کہ: توبہ تائب شخص کسی بھی دوسرے شخص سے اس مال کا زیادہ حقدار ہے ۔ چنانچہ اگر توبہ کرنے والا شخص غریب بھی ہے تو پھر واقعی اس سے زیادہ کوئی بھی اس مال کا حقدار نہیں ہے، میں نے یہی فتوی کئی بار پہلے دیا ہے؛ کیونکہ اس طرح توبہ کرنے کی ترغیب ہو گی، اور اگر اس غریب شخص کو کہا گیا کہ اپنی جیب سے نکال کر صدقہ کرو تو اسے بہت زیادہ نقصان ہو گا، اور ممکن ہے توبہ بھی نہ کرے۔ حالانکہ اصولِ شریعت پر غور و فکر کرنے والے کو واضح طور پر محسوس ہو گا کہ اگر کوئی شخص توبہ کرنا چاہتا ہو تو اصولِ شریعت کے مطابق ا س کے ساتھ جہاں تک ہو سکے نرمی برتی جاتی ہے۔

اسی طرح یہ بھی ہے کہ: اگر کوئی شخص خود رکھ لیتا ہے تو اس میں کسی قسم کی خرابی نہیں ہے؛ کیونکہ مال ادا کنندہ کی ملکیت سے نکل کر وصول کنندہ کی ملکیت میں آ چکا ہے، اور یہ مال لذاتہٖ محرم بھی نہیں ہے، بلکہ یہ مال حرام اس لیے ہوا کہ اس کے ذریعے حرام کام کے لیے مدد لی گئی ہے، جو کہ توبہ کرنے سے دھل چکا ہے، اس لیے غربت کی حالت میں وہ اس مال سے استفادہ لے سکتا ہے، اور اگر وہ مالدار ہے تب بھی اس کے وصول کرنے کی ایک وجہ ہے کہ اس طرح غیر شرعی طریقوں سے مال کمانے والوں کے لیے توبہ کرنا آسان ہو گا۔۔۔

پھر اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ:
فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى فَلَهُ مَا سَلَفَ
ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت آ گئی اور وہ [حرام کمائی سے ] رک گیا تو ماضی میں جو کچھ کمایا اسی کا ہے۔[البقرۃ: 275]

تو یہاں اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا کہ نصیحت آنے کے بعد مسلمان ہو گیا، یا یہ کہا ہو کہ یہ حکم ان لوگوں کے لیے جن کے لیے حرمت واضح ہو چکی ہو، بلکہ واضح فرمایا: فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّهِ فَانتَهَى ترجمہ: پس جس کے پاس اس کے رب کی نصیحت آ گئی اور وہ [حرام کمائی سے ] رک گیا۔[البقرۃ: 275] اور یہاں پر قرآنی لفظ { مَوْعِظَةٌ } یعنی نصیحت ایسے شخص کے لیے زیادہ ہو گی جسے حرمت کا علم تھا، جبکہ جس شخص کو اس عمل کی حرمت کا علم نہیں تھا اس کے لیے نصیحت کا فائدہ قدرے کم ہو گا۔ فرمانِ باری تعالی ہے: يَعِظُكُمُ اللَّهُ أَنْ تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ ترجمہ: اللہ تعالی تم سب کو نصیحت کرتا ہے کہ تم دوبارہ کبھی بھی ایسی حرکت نہ کرو، اگر تم مومن ہو۔[النور: 17] " ختم شد
"تفسير آيات أشكلت على كثير من العلماء" (2/593-596)

اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ : (7/285) میں ہے کہ: ہمیں عبد اللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی وہ ربیع بن سعد سے بیان کرتے ہیں کہ: ایک شخص نے ابو جعفرؒ سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو کہتا ہے کہ: میرے دوست کو حرام مال ملا ، اور اس حرام کو اس نے اپنی ہر چیز پر خرچ کیا، پھر اسے بعد میں پتہ چلا کہ یہ مال میرے لیے حرام تھا، تو گناہ دھونے کے لیے حج کرنے کے لیے چلا آیا اور اب اس بیت اللہ کے پڑوس میں ہے، آپ اس کے لیے کیا حکم دیتے ہیں؟
تو انہوں نے کہا: میں یہ سمجھتا ہوں کہ تقوی الہی اپنائے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرے۔

ایسے ہی الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"توبہ کرنے کے بعد اللہ تعالی نے سودی لین دین کرنے والے کو یہ نہیں کہا کہ سابقہ لیا ہوا سود واپس کرو، بلکہ صرف وہی سود واپس کرنے کا کہا ہے جو ابھی تک وصول نہیں کیا؛ پھر چونکہ اس نے پہلے والا سود مالک کی رضا مندی سے حاصل کیا تھا، اس لیے اس کا حکم غصب شدہ مال والا نہیں ہو گا۔

پھر اس موقف کو اپنانے سے توبہ کرنے کی ترغیب ملے گی، جو کہ اس موقف میں نہیں ہے کہ اس کی توبہ ماضی کے تمام غیر شرعی لین دین واپس کرنے پر ہی موقوف ہو گی۔" ختم شد
"الفتاوى السعدية" (ص 303)

خلاصہ کلام:

  • جن اشیا کی مالیت شریعت نے کالعدم قرار دی ہے ان سے کسی بھی طرح سے فائدہ اٹھانا جائز ہی نہیں ہے، بلکہ انہیں ضائع کر کے ان سے خلاصی پانا لازم اور واجب ہے۔
  • اگر کسی نے ناجائز طور پر کسی کا مال اس کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر لیا ہے، تو اس مال کو اصل مالک تک واپس کرنا لازم ہے، یا اس کے وارثوں تک پہنچائے اس کے بغیر وہ بری الذمہ نہیں ہو سکتا، اور اگر متعلقہ شخص تک رسائی مشکل ہو تو ساری رقم اصل مالک کی طرف سے صدقہ کر دے۔
  • ایک شخص حرام مال کماتا ہے لیکن اسے مال کمانے کے اس طریقے کی حرمت کا علم نہیں تھا، یا اس نے اس طریقے کو جائز قرار دینے والے عالم دین کے فتوے کی تقلید کی تھی: تو ایسی صورت میں وہ شخص توبہ کرنے کے بعد اس مال کو ذاتی استعمال میں لا سکتا ہے، اسے ضائع کر کے خلاصی پانا لازم نہیں ہے۔
  • لیکن اگر کوئی شخص حرام مال کماتا ہے اور اسے اس کے حرام ہونے کا علم بھی ہے ، اور وہ اس کے مالک کی اجازت اور رضا مندی سے اپنے قبضے میں لیتا ہے پھر اس طریقے سے توبہ کر لیتا ہے تو یہ اس کو واپس نہیں کرے گا۔ یہاں علمائے کرام کا اختلاف ہے کہ اس مال کو صدقے میں دینا لازم ہے یا وہ خود بھی اس سے استفادہ کر سکتا ہے؟ خود استفادہ کرنے کا موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے۔

ہم یہ نصیحت کریں گے کہ:

  • اگر توبہ کرنے والا شخص مالدار اور صاحب حیثیت ہے اور اس مال سے خلاصی پانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے ، پھر خلاصی پانے پر اس کا دل بھی راضی ہے تو پھر اس مال کو غریبوں میں تقسیم کر دے ، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے، اور یہ انسان کے بری الذمہ ہونے کے لیے بہترین اور محتاط عمل ہے۔
  • اور اگر اس کا دل خلاصی پانے پر راضی نہیں ہے ، یا خلاصی پانے والا موقف اسے توبہ کرنے سے روک سکتا ہے، یا رکاوٹ ڈال سکتا ہے ، یا وہ خود اس مال کا ضرورت مند ہے، تو پھر وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے موقف کے مطابق ذاتی استعمال میں لا سکتا ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب