الحمد للہ.
اول:
اگر دو افراد رقوم یا تجارت میں شراکت داری رکھیں تو ان میں سے ہر ایک کے ذمہ اپنے مال میں سے زکاۃ لازم ہوگی، چنانچہ جس کا حصہ زکاۃ کے نصاب کو مکمل کرتا ہو تو وہ اپنے مال کی زکاۃ اد اکر دے، اور جس کا حصہ نصاب کے برابر نہ ہو تو اس پر زکاۃ نہیں ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی سونا، چاندی، سامانِ تجارت، کھیتی اور پھلوں کو ایک دوسرے کے حصے میں ملا دیں تو اس سے کوئی اثر نہیں پڑے گا، چنانچہ ہر ایک کے لئےدوسرے سے الگ رکھتے ہوئے زکاۃ کا حساب الگ سے لگایا جائے گا، یہی موقف اکثر اہل علم کا ہے" انتہی
" المغنی " (2/255)
دوم:
آپ کے بھائی اور والد کو آپ کی بیوی کے مال کی زکاۃ دی جاسکتی ہے، کیونکہ آپ کی بیوی پر ان کا خرچہ لازمی نہیں ہے، اسی طرح آپ صرف اپنے بھائیوں کو ضروریات پوری کرنے کیلئے یا شادی کیلئے زکاۃ دے سکتے ہیں، کیونکہ والد کی موجودگی میں آپ پر ان کا خرچ لازمی نہیں ہے، اسی طرح آپ اپنے والد کا صرف قرض چکانے کیلئے زکاۃ دے سکتے ہیں۔
جبکہ والد کو ان کی ضروریات پوری کرنے کیلئے امداد دینے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے کہ اگر آپ کے پاس موجود مال آپ کی اور آپ کے اہل خانہ کی ضروریات سے اتنا زیادہ ہے کہ والد کو کفایت کر سکتا ہے تو آپ اپنے والد کو زکاۃ مت دیں بلکہ زکاۃ سے ہٹ کر ان کا تعاون کریں، اور اگر آپ کے پاس اتنا مال نہیں ہے تو پھر آپ انہیں اپنی زکاۃ دے سکتے ہیں۔
پہلے اس مسئلے کا تفصیلی بیان سوال نمبر: (105789) ، (21810) اور (21975) کے جوابات میں گزر چکا ہے۔
واللہ اعلم.