جمعرات 18 جمادی ثانیہ 1446 - 19 دسمبر 2024
اردو

رابطے کے جدید ذرائع پر جنازے کا اعلان ۔

سوال

ہمارے کچھ بھائیوں نے -اللہ انہیں جزائے خیر دے- فیس بک، ٹویٹر اور واٹس ایپ پر اپنے اپنے علاقوں کے صفحات بنائے ہوئے ہیں وہاں علاقے میں ہونے والی فوتیدگی کا اعلان کرتے ہیں، اسی طرح جنازوں کے متعلق موبائل پر اپنے دوستوں کو پیغامات بھی ارسال کرتے ہیں، تو ان کا یہ عمل شرعی طور پر منع "نعی" تو نہیں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نعی کی تین اقسام ہیں: حرام، مکروہ اور جائز۔

حرام نعی یہ ہے کہ:

اہل جاہلیت کی طرح عوامی محفلوں میں میت کی خوبیاں اور حسب نسب ذکر کیا جائے، اور اس کے ساتھ جزع فزع اور بین بھی شامل ہو۔
مزید کے لئے دیکھیں: " حاشية الجمل على المنهج " لزكريا الأنصاري (3 / 687)

مکروہ نعی یہ ہے کہ:

فوتیدگی کی خبر بلند آوازیں لگا کر دیں تا ہم اس میں میت کی خوبیوں اور حسب نسب کا ذکر نہ ہو۔

جائز نعی یہ ہے کہ:

آوازیں بلند کیے بغیر فوتیدگی کی خبر دی جائے۔

نعی کی یہ آخری قسم سنت کے دلائل سے جائز ہے، جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے نجاشی کی موت کی خبر دی، اور اسی طرح جنگ موتہ کے شہدا اور دیگر لوگوں کی وفات کی اطلاع دی۔

اس بارے میں اہل علم کی گفتگو سوال نمبر: (60008) کے جواب میں گزر چکی ہے، آپ اس کا مطالعہ کریں۔

علامہ کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میت کی فوتیدگی کی خبر میت کے اقربا، دوستوں، پڑوسیوں کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، مقصد یہ ہو کہ میت کا جنازہ ادا کریں، میت کے لئے دعا میں شامل ہوں اور تدفین کے لئے قبرستان تک جائیں۔۔۔ فوتیدگی کی اطلاع دینے سے ایک نیکی کے کام کی رغبت بھی ملے گی، اور لوگ اس کے لئے تیار بھی ہوں گے، تو اس طرح ایسی اطلاع نیکی اور تقوی کے کاموں میں اعانت، خیر کے لیے ذریعہ ، اور اچھے کام کے لئے رہنمائی کا باعث ہو گی۔" ختم شد
"بدائع الصنائع" (3/207)

دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (8/402) میں ہے کہ:
"اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کے رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں کو نماز جنازہ کی اطلاع دینا جائز ہے، تا کہ وہ بھی میت کے جنازے میں شریک ہوں، اس کے لئے دعا کریں اور جنازے میں تدفین کے لیے ساتھ جائیں، نیز تدفین میں مدد بھی کریں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی صحابہ کرام کو نجاشی کی وفات کی خبر دی تھی تا کہ صحابہ کرام اس کا جنازہ ادا کریں۔" ختم شد

دوم:

فیس بک، ٹویٹر ، اور وٹس ایپ جیسی سماجی رابطے کی ویب سائٹس وغیرہ پر ، یا ایمیل کے ذریعے یا موبائل پیغامات کے ذریعے میت کی فوتیدگی کا اعلان کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہو کہ لوگ جنازے میں شرکت کریں، یا میت کے لئے دعا اور بخشش طلب کریں، یا سوگواران سے تعزیت کریں؛ کیونکہ یہ اعلان ان تمام اچھے کاموں کا ذریعہ بنے گا۔

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے اخبار میں اعلانِ فوتیدگی دینے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا:
"ہمیں اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا، اس کا تعلق لوگوں کو خبر دینے سے ہے" ختم شد
"مسائل الإمام ابن باز" از ابن مانع (ص: 108)

اور شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میت کی وفات کے اعلان سے متعلق یہ ہے کہ: اگر اعلان کا کوئی مقصد اور مصلحت ہو ، مثلاً: میت کا بہت سے لوگوں کے ساتھ لین دین ہو، اور وفات کا اعلان کرنے سے لوگوں کو اطلاع دینا بھی مقصود ہو کہ جس کا میت سے لین دین ہے وہ میت کے ورثا سے اپنا تصفیہ کروا لے، یا کوئی اور مثبت مقصد ہو تو اعلان کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل عثیمین" (17/461)

شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"خیر و بھلائی میں مشہور و معروف افراد کی وفات کی خبر نشر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مقصد یہ ہو کہ ان کے لئے زیادہ سے زیادہ رحمت کی دعا کی جائے، اور مسلمان ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کریں، تاہم اعلان کرتے ہوئے ان کی ایسے مدح سرائی نہ کی جائے جو ان میں تھی ہی نہیں؛ کیونکہ یہ صاف جھوٹ ہوگا" ختم شد
"فتاوى إسلامية" (2/106)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب