الحمد للہ.
شریعت میں امانت کے دو معانی ہیں: ایک عام اور دوسرا خاص
امانت کا عمومی معنی:
لفظ امانت بول کر تمام شرعی احکامات اور نواہی مراد لیے جاتے ہیں۔
اس معنی کے طور پر لفظ امانت کا استعمال قرآن کریم میں بھی ہوا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا
ترجمہ: یقیناً ہم نے امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اس کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا اور اسے سے ڈر گیے، لیکن انسان نے اس کی ذمہ داری لے لی؛ یقیناً انسان ظالم اور جاہل ہے۔ [الاحزاب: 72]
ابن کثیر رحمہ اللہ نے لفظ { الْأَمَانَةَ } کی تفسیر میں علمائے کرام کے متعدد اقوال ذکر کیے ہیں، اس کے بعد اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:
“ان سب کے سب اقوال میں باہمی کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ ان سب اقوال کا تعلق آخر کار ایک ہی چیز سے ہے، اور وہ اللہ تعالی کی طرف سے مکلف بنانا، اللہ تعالی کے احکامات اور نواہی کو ان کی شرط کے ساتھ قبول کرنا۔ شرط یہ تھی کہ اگر احکامات کو سر انجام دیا تو ثواب ملے گا، اور اگر سر انجام نہیں دیا تو سزا ملے گی۔ انسان نے کمزور، جاہل اور ظالم ہوتے ہوئے بھی اسے قبول کر لیا۔ اب ان پر عمل ان کے آسان ہے جنہیں اللہ تعالی توفیق دے۔ اس کے لیے اللہ تعالی سے ہی مدد مانگنی چاہیے۔ ” ختم شد
“تفسیر ابن کثیر” (6 / 489)
آیت کے اسی مفہوم کو ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے، آپ کہتے ہیں:
“درستگی کے قریب ترین موقف ان لوگوں کا ہے جو کہتے ہیں کہ: اس جگہ پر امانت سے دین میں لیے گئے تمام معانی مراد ہیں کہ دینی امانتیں ا ور لوگوں کی امانتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے فرمان : عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ میں ہمارے بیان کردہ امانت کے بعض معانی کو بھی مخصوص نہیں فرمایا۔” ختم شد
” تفسیر طبری” (19 / 204 – 205)
اسی طرح علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“صحیح موقف کے مطابق لفظ امانت میں تمام تر دینی ذمہ داریاں آتی ہیں۔ یہی جمہور اہل علم کا موقف ہے۔” ختم شد
تفسیر قرطبی: (17 / 244)
فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ
ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور معاہدوں کا خیال رکھتے ہیں۔ [المؤمنون: 8]
اس آیت کی تفسیر میں الشیخ المفسر محمد الامین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس آیت کریمہ میں امانت سے مراد: ہر وہ چیز ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو ودیعت کی ہے، پھر آپ کو اس کی حفاظت کا حکم دیا ہے، اس طرح آپ پر لازم ہے کہ اپنے اعضا کو ایسے کسی بھی کام سے محفوظ رکھیں جو اللہ تعالی کا پسندیدہ نہ ہو، اسی طرح لوگوں نے جو آپ کے پاس امانت رکھوائی ہے ان کی حفاظت کریں۔۔۔” ختم شد
ماخوذ از: ” أضواء البيان ” (5 / 846)
امانت کا خصوصی معنی:
شرعی نصوص میں امانت کی حفاظت کرنے کا حکم ہے ، اور یہ نصوص تواتر کی حد تک پہنچ جاتی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ امانت ضائع نہ کی جائے، نہ ہی اس میں خیانت کی جائے؛ یہ بات اہل علم کی فقہی کتابوں میں بھی موجود ہے، اور ہر خاص و عام کی زبان زد عام بھی ہے، لگتا ہے کہ سائل کی سوال میں مراد بھی یہی ہے۔
تو امانت سے مراد: ہر وہ چیز جس کی حفاظت کرنا انسان کے ذمہ اور دوسروں کے وہ تمام حقوق جو انسان پر ادا کرنا لازم ہیں ، امانت کہلاتے ہیں۔
اس کی مشہور ترین تین صورتیں ہیں:
پہلی صورت:
ایسے مالی حقوق جو کسی معاہدے کی وجہ سے کسی کے ذمہ ہوئے ہیں، مثلاً: امانت رکھی ہوئی چیزیں، قرض، اور اجارہ کی تمام صورتیں وغیرہ ۔ یا ایسے مالی حقوق جو کسی معاہدے کے بغیر انسان کے ذمہ ہو جائے، مثلاً: کسی انسان کی گری پڑی چیز مل جائے، یا لوگوں کی گم شدہ کوئی چیز انسان کو مل جائے۔
” الموسوعة الفقهية الكويتية ” (6 / 236) میں ہے کہ:
“استقرا کے بعد یہ چیز سامنے آئی ہے کہ امانت کے لفظ کو فقہائے کرام دو معانی میں استعمال کرتے ہیں:
ان میں سے ایک یہ ہے کہ: امانت سے مراد بعینہٖ وہ چیز جو امین شخص کے پاس رکھوائی جاتی ہے، اس کی متعدد صورتیں ہیں:
الف- ایسا معاہدہ جس میں امانت ہی اصل مقصود ہوتی ہے، مثلاً: ودیعت میں رکھی گئی چیز، یہ وہ چیز ہوتی ہے جو کسی شخص کے پاس حفاظت کرنے کے لیے رکھی جائے، اس صورت میں ودیعت امانت سے خاص چیز ہے۔ اس لیے ہر ودیعت امانت ہوتی ہے لیکن ہر امانت ودیعت نہیں ہوتی۔
ب- ایسا معاہدہ جس میں امانت ضمنی ہوتی ہے اصل مقصود نہیں ہوتی، بلکہ امانت اصل مقصود کے تابع ہوتی ہے، مثلاً: اجارہ، عاریہ، مضاربہ، وکالہ، شرکہ، اور رہن وغیرہ۔
ج-ایسی امانت جو ان کے ذمے میں کسی معاہدے کے بغیر آ جائے، مثلاً: لقطہ، یعنی گری پڑی چیز۔ اسی طرح اگر کسی کی کوئی چیز ہوا سے اڑ کر ہمسائے کے گھر چلی جائے وغیرہ۔ انہیں فقہی اصطلاح میں شرعی امانت کہا جاتا ہے۔” ختم شد
دوسری صورت:
لوگوں کے رازوں کو محفوظ رکھنا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً اللہ تعالی کے ہاں عظیم ترین امانت قیامت کے دن یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے خلوت اختیار کرے اور بیوی اپنے خاوند کے ساتھ خلوت میں ہو، اور پھر مرد اپنی بیوی کے راز فاش کرے۔) اسے مسلم: (1437) نے روایت کیا ہے۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب کوئی آدمی بات کرتے ہوئے دائیں بائیں دیکھے اور پھر بات کرے تو یہ بات امانت ہے۔) اس حدیث کو ابو داود: (4868) اور ترمذی : (1959) نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے سلسلہ صحیحہ: (4868) میں صحیح قرار دیا ہے۔
تیسری صورت:
منصب ، سرکاری عہدے، یا نجی ملازمت وغیرہ: تو یہ بھی امانت ہیں، ان میں عدل اور حق کا خیال رکھتے ہوئے فرائض سر انجام دینا ضروری ہے، لہذا : حکومتی عہدہ امانت ہے، قاضی کا عہدہ امانت ہے، کسی بھی کمپنی میں مینجر کا عہدہ امانت ہے، خاندانی ذمہ داری بھی امانت ہے، اس طرح تمام تر ذمہ داریاں اور منصب سب کے سب امانت ہیں۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب امانت ضائع کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کر) پوچھا: یا رسول اللہ! امانت کیسے ضائع ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب معاملات کی باگ ڈور نا اہل لوگوں کے سپرد ہونے لگے تو پھر قیامت کا انتظار کر۔) اسے بخاری : (6496)نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنا گورنر بنا کر کیوں نہیں بھیج دیتے؟” ابو ذر بتلاتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے میرے کندھے پر ہاتھ سے تھپکی دی، اور پھر کہا: (ابو ذر! تم کمزور ہو، اور یہ ذمہ داریاں بہت بڑی امانت ہیں، یہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت کا باعث ہو گی، سوائے ان لوگوں کے جو ان کے اہل ہوتے ہوئے انہیں لے، اور پھر اسے قبول کرنے کے بعد آنے والی ذمہ داریوں کو اچھے طریقے سے ادا کریں۔) اسے مسلم: (1825) نے روایت کیا ہے۔
دوم:
امانتیں یعنی ذمہ داریاں چاہے سرکاری ہوں یا نجی انہیں شرعی طور پر مطلوب طریقے سے ادا کرنا واجب ہوتا ہے، چنانچہ انہیں غلط استعمال کرنا یا ان میں خیانت کرنا حرام ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول اللہ کی خیانت نہ کرو، نہ ہی تم اپنی امانتوں میں خیانت کرو، حالانکہ تم جانتے ہو۔ [الانفال: 27]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالی تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں یعنی ذمہ داریاں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو۔[النساء: 58]
امانت میں خیانت منافقت کی علامت ہے۔
سیدناعبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں چاروں میں سے ایک عادت ہو تو اس میں منافقت کی خصلت ہے یہاں تک کہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب اسے امین بنایا جائے تو خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب لڑائی کرے تو گالیوں پر اتر آئے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (34) اور مسلم : (58) نے روایت کیا ہے۔
سوم:
امانت میں خیانت کرنا ایک جرم اور کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔ اگرچہ خیانت بڑا گناہ ہے، لیکن پھر بھی توبہ کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کھلا ہے۔
فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
ترجمہ: کہہ دیجیے! اپنی جانوں پر زیادتی کرنے والے میرے بندو! تم سب اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا، یقیناً اللہ تعالی سب گناہ معاف کر دیتا ہے، یقیناً وہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [الزمر: 53]
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:
وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
ترجمہ: وہی ذات ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتی ہے اور گناہوں کو معاف کر دیتی ہے، اور وہ اسے تمہارے سارے اعمال کا علم ہے۔[الزمر: 53]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص سورج کے مغرب سے طلوع ہونے توبہ کر لے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔) مسلم: (2703)
سچی توبہ یہ ہوتی ہے کہ: انسان فوری گناہ ترک کر دے، اس پر ندامت کا اظہار کرے، اور آئندہ کبھی بھی وہ غلطی نہ کرنے کا عزم کرے۔
پھر امانت ضائع کرنے والا شخص دیکھے کہ : اگر امانت کا تعلق حقوق اللہ سے ہے تو پھر مزید توبہ و استغفار کرے، اور پھر دیکھے کہ اگر اس کوتاہی کے تدارک کے لیے قضا یا کفارہ ہو تو ادا کرے۔
مثلاً: ضائع کردہ امانت روزے کی شکل میں ہے کہ روزے دار نے رمضان میں روزہ عمداً توڑ لیا تو اس پر توبہ کے ساتھ ساتھ روزہ خوری والے ایام کے روزوں کی قضا دینا بھی لازم ہے، اور اگر روزہ توڑنے کا عمل جماع کی وجہ سے تھا تو پھر اس پر سابقہ شرعی امور کے ساتھ ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی لازم ہے۔
اور اگر امانت کا تعلق حقوق الناس سے ہے تو پھر توبہ، ندامت اور ترک گناہ کے ساتھ ساتھ یہ بھی واجب ہے کہ لوگوں کے حقوق ان تک واپس پہنچائے یا ان سے معافی تلافی کروا لے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر کسی شخص کا ظلم کسی دوسرے کی عزت پر ہو یا کسی طریقہ ( سے ظلم کیا ہو ) تو آج ہی، اس دن کے آنے سے پہلے معاف کرالے جس دن نہ دینار ہوں گے، نہ درہم۔ بلکہ اگر اس کا کوئی نیک عمل ہو گا تو اس کے ظلم کے بدلے میں وہی لے لیا جائے گا اور اگر کوئی نیک عمل اس کے پاس نہیں ہو گا تو اس کے ( مظلوم ) ساتھی کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی) اسے بخاری: (2449) نے روایت کیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“علمائے کرام کہتے ہیں کہ: تمام تر گناہوں سے توبہ کرنا واجب ہے، چنانچہ اگر گناہ کا تعلق بندے اور اللہ تعالی کے درمیان ہے اور اس میں حقوق العباد شامل نہیں ہیں تو پھر اس کی تین شرائط ہیں:
پہلی شرط: گناہ چھوڑ دے۔
دوسری شرط: گناہ کرنے پر ندامت کا اظہار کرے۔
تیسری شرط: آئندہ کبھی بھی یہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے۔
اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو توبہ صحیح نہیں ہو گی۔
اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے تو پھر ان تین شرائط کے ساتھ چوتھی شرط بھی ہے کہ: اس شخص کے حق کو واپس کرے، اگر مالی حق ہے تو مال واپس کرے، اور اگر تہمت وغیرہ سے تعلق رکھتا ہے تو پھر اپنے آپ کو متعلقہ شخص کے حوالے کر دے یا اس سے معافی مانگ لے، اور اگر غیبت کی ہوئی ہو تو اس کی تلافی کر لے۔” ختم شد
ماخوذ از: ” رياض الصالحين ” ( ص 14 )
غیبت کی معافی تلافی کے بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (23328) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم