اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایسی ویڈیو گیم کھیلنے کا حکم جس میں کھیلنے والے کو کئی زندگیاں ملتی ہیں۔

237205

تاریخ اشاعت : 23-06-2020

مشاہدات : 7501

سوال

ایسی ویڈیو گیمز کھیلنے کا کیا حکم ہے جس میں کھیلنے والے کو زندگی کے تین یا چار موقع دیے جاتے ہیں، یعنی مطلب یہ ہے کہ ایک بار جان کی بازی ہار جائے تو اسے مزید موقع دیا جاتا ہے، یا کہا جاتا ہے کہ اس گیم میں پانچ چانس فراہم کیے جاتے ہیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام تفریحی امور سے منع نہیں کرتا، اسی لیے جائز تفریح جائز وسائل کے ذریعے حاصل کرنا مباح ہے، اسلام میں منع نہیں ہے۔

اس طرح کی گیمز میں اصول یہ ہے کہ یہ گیمیں کھیلنا مباح ہے، بشرطیکہ کسی شرعی واجب سے نہ روکیں، مثلاً: وقت پر نماز پڑھنا، والدین کی بات سننا اور اس پر عمل کرنا، اور اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی حرام چیز نہ ہو، اور ایسی گیموں میں حرام امور بہت زیادہ ہوتے ہیں، ان حرام امور میں سے چند یہ بھی ہیں:

1- کچھ ایسی گیمیں ہیں جو کہ زمینی اچھے لوگوں اور آسمانی بری طاقتوں کے درمیان جنگ کے تصور پر مبنی ہوتی ہیں، اور ان گیمز میں اسی طرح کی باتیں اور بھی پائی جاتی ہیں کہ اللہ تعالی کے بارے میں الزام تراشی، اللہ تعالی کا عدم احترام، اور مکرم فرشتوں کے بارے میں طعن زنی وغیرہ۔

2- ایسی گیمز جن میں کفریہ شعاروں مثلاً صلیب وغیرہ کو مقدس بنا کر پیش کیا جاتا ہے، نیز گیم کے دوران ان کفریہ چیزوں کے پاس سے گزرنے سے صحت اور قوت ملتی ہے، اسی طرح کسی کی سالگرہ کے کارڈ بنانا یہ بھی عیسائیت کا مذہبی عمل ہے۔

3- ایسے کھیل جن میں جادو اور جادو گروں کو بڑی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی اور بہت سی چیزیں ہیں جو ان گیموں میں پائی جاتی ہیں، ان کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (2898 ) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

جبکہ سوال میں مذکور کھیلوں جیسی گیمیں کھیلنا کہ اس میں تین بار زندگی ملتی ہے، یا کسی دل کے پاس سے گزرنے سے ایک اور زندگی مل جاتی ہے، گیم کے اصولوں میں اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ گیم چلتی رہے۔ تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے؛ کیونکہ یہ معاملہ محض کھیل اور تفریح سے تعلق رکھتا ہے، اس میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی، اور نہ ہی کوئی کھیلنے والا اس کو حقیقت سمجھتا ہے۔

اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کھیلنے والے کو مزید موقع دیا جائے، اور گیم کو حقیقت کے قریب تر سمجھنے کے لیے اس کو نئی زندگی کا نام دیتے ہیں۔

شرعی طور پر اصول یہ ہے کہ کھیل کود میں شریعت کے اندر قدرے نرمی پائی جاتی ہے، اسی لیے شریعت نے گڑیوں سے بنے ہوئے کھلونوں سے کھیلنا جائز قرار دیا ہے، چاہے ان میں خلاف واقع ہی چیزیں کیوں نہ پائی جاتی ہوں، جیسے کہ پروں والا گھوڑا کہ جس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کھیلا کرتی تھیں۔

چنانچہ اس کے بارے میں ابو داود : (4932) میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک یا خیبر سے واپس تشریف لائے تو میرے طاقچے کے آگے پردہ پڑا ہوا تھا ۔ ہوا چلی تو اس نے پردے کی ایک جانب اٹھا دی تب سامنے میرے کھلونے اور گڑیاں نظر آئیں ۔ آپ نے پوچھا : (عائشہ یہ کیا ہے ؟) میں نے کہا : "یہ میری گڑیاں ہیں" آپ نے ان میں ٹاکیوں سے بنا ہوا ایک گھوڑا بھی دیکھا جس کے دو پر بھی تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (میں ان کے درمیان یہ کیا دیکھ رہا ہوں ؟ ) میں نے کہا : یہ گھوڑا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : (اور اس کے اوپر کیا ہے ؟) میں نے کہا : اس کے دو پر ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا گھوڑے کے بھی پر ہوتے ہیں ؟) عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا : "آپ نے سنا نہیں کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے ؟" سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : (اس برجستہ جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسے کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں نظر آنے لگیں) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

تاہم ان گیموں کو کھیلتے ہوئے مکمل طور پر محتاط رہنا چاہیے کہ ان گیموں میں کسی بھی باطل دین اور مذہب کی ترویج نہ ہو کہ ان میں کفر و ضلالت کے شعار صلیب یا بدھا کا مجسمہ وغیرہ نہ پایا جائے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات