منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

کیا صفت عدل، اللہ تعالی کی ذاتی صفات میں سے ہے یا فعلی ؟

سوال

اللہ تعالی صفت عدل سے متصف ہے، تو کیا یہ صفت ذاتی ہے یا فعلی ؟ وضاحت فرما دیں۔

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی کی صفت عدل کا ثبوت

اللہ سبحانہ و تعالی کی صفت عدل ثابت ہے، جیسے کہ بخاری و مسلم میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تقسیم مال پر اعتراض کرنے والے شخص کا تذکرہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے فرمایا تھا: (تو کون عدل کرے گا ، اگر اللہ تعالی اور اس کا رسول ہی عدل نہ کریں)

اسی طرح اللہ تعالی کی صفت کلام بھی عدل سے متصف ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے: وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا
 ترجمہ: اور تیرے رب کا کلام سچائی اور عدل کے ساتھ مکمل ہوا۔ [الانعام: 115]

ابن قیم رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں:
{ والعدْلُ من أوصافهِ في فعلهِ ومقالِهِ والحكم في الميزانِ}
یعنی: عدل بھی اللہ تعالی کی صفات میں شامل ہے، اللہ تعالی کے افعال، اقوال اور میزان سب ہی عدل سے متصف ہیں۔

صفت عدل کے متعلق یہی گفتگو سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ جب بھی کسی وعظ و نصیحت کی مجلس میں بیٹھتے تو فرماتے: "اللہ تعالی عدل سے فیصلے کرنے والا ہے، اس بات میں شک کرنے والے ہلاک ہو ں گے ۔۔۔" اس اثر کو ابو داود: (4611) نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے موقوفا ذکر کیا ہے، اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔

اس کی شرح میں صاحب عون المعبود لکھتے ہیں:
"ان الفاظ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی حاکم اور عادل ہے۔"

دوم:

عدل ، ذاتی صفت ہے

عدل اللہ تعالی کی ذاتی صفت ہے، اور ذاتی صفت کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ: وہ صفات اللہ تعالی کے ساتھ ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے ہوتی ہیں، تو صفت عدل بھی ایسے ہی ہے کہ وہ ہمیشہ سے عدل فرما رہا ہے اور ہمیشہ عدل فرماتا رہے گا، اس میں کبھی انقطاع نہیں آئے گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ذاتی صفات وہ ہیں جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک کے لیے اللہ تعالی کے لیے ثابت ہیں، مثلاً: حیات، علم، قدرت، سماعت، بصارت، عزت، اور حکمت سمیت دیگر بہت سی صفات ذاتی ہیں، انہیں ہم ذاتی صفات کہتے ہیں؛ کیونکہ یہ صفات ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لیے اللہ تعالی کی ذات میں پائی جاتی ہیں۔" ختم شد
"شرح السفارينية"، ص 155

کیا اللہ تعالی کے ناموں میں عدل، اور مقسط شامل ہے؟ اس بارے میں مختلف اقوال جاننے کے لیے سوال نمبر: (104488) اور (330932) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب