جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

ميڈيكل كى تعليم ميں تصوير اور خاكے استعمال كرنا

40054

تاریخ اشاعت : 25-03-2009

مشاہدات : 11958

سوال

ميں ميڈيكل كالج ميں زير تعليم ہوں، ميرى تعليم كے متعلق مجھے كچھ مشكلات درپيش ہيں جو درج ذيل ہيں:
1 - ميرى كتابيں مرد اور عورتوں كى تصاوير پر مشتمل ہيں، كيا اس طرح كى تصاوير پردہ كے معارض ہيں ؟
2 - امتحانات ميں ہمارے ليے ضرورى ہے كہ انسانى جسم كے بعض اجزا كا خاكہ بنايا جائے، نہ كہ سارے جسم كا، مجھے علم ہے كہ حديث ميں آيا ہے كہ تصوير بنانے والوں كو آگ كا عذاب ديا جائيگا، ليكن مجھے يہ يقينى طور پر معلوم نہيں كہ تعليم كے ليے ايسا كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
مجھے آپ نصيحت كريں كيونكہ ميں مخالفت شريعت كوئى كام نہيں كرنا چاہتا.

جواب کا متن

الحمد للہ.

يہ تو معلوم ہى ہے كہ ہمارى شريعت ميں ذى روح اشياء كى تصاوير اور خاكے بنانا ممنوع اور حرام ہے، كيونكہ اس كى ممانعت ميں بہت سارى احاديث وارد ہيں جو ايسا كرنے سے منع كرتى ہيں، ا سكا تفصيلى بيان ہمارى اسى ويب سائٹ كے كئى ايك جوابات ميں بيان ہو چكى ہے، جس ميں سے آپ سوال نمبر ( 7222 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور يہ بھى معلوم ہے كہ متفقہ فقہى قواعد ميں يہ قاعدہ اور اصول بھى شامل ہے كہ: ضروريات ممنوع اشياء كو مباح كر ديتى ہيں، اور بعض اوقات جب پانچ ضروريات دين، نفس، بدن، عزت، اور مال جن كى حفاظت كا شريعت نے حكم ديا ہے ميں سے كوئى ضرورت ثابت ہوتى ہو ت واس كى نتيجہ ميں حكم حرمت سے جواز كى طرف منتقل ہو جاتا ہے.

اور جب علم طب ضرورى علوم ميں شامل ہوتا ہے جس كا انسان محتاج ہے، حتى كہ بعض علماء كرام نے تو اسے فرض كفايہ ميں شامل كيا ہے اس كى بنا پر كچھ اشياء كو جائز كيا جاتا ہے جو اصلا حرام اور منع تھيں تا كہ يہ فرض كفايہ پورا كيا جا سكے.

امام نووى رحمہ اللہ " روضۃ الطالبين " ميں لكھتے ہيں:

" اور رہے عقلى علوم تو ان ميں سے كچھ فرض كفايہ ہيں مثلا علم طب " انتہى.

ديكھيں: روضۃ الطالبين ( 1 / 223 ).

بلكہ موفق الدين بغدادى نے تو اپنى كتاب " الطب من الكتاب و السنۃ " ميں امام شافعى رحمہ اللہ سے ان كا يہ قول نقل كيا ہے:

" ميرے علم كے مطابق حلال اور حرام كے بعد علم طب سے زيادہ كوئى نبيل علم نہيں " انتہى.

ديكھيں: الطب من الكتاب و السنۃ ( 187 ).

اور ڈاكٹر ـ اگرچہ وہ بغير ضرورت كے عورتوں كا علاج نہ كرتا ہو ـ پھر بھى اسے دونوں جنسوں كا علاج كرنا پڑتا ہے، كيونكہ بعض اوقات ليڈى ڈاكٹر كسى مخصوص مرض كے علاج يا كسى معين علاقے ميں ميسر نہيں ہو سكتى، اسى طرح علم طب كى اساس انسانى جسم كى تركيب، اور اعضاء كے خصائص، اور ہر اعضاء كے كام كى تفصيل كو سمجھنا ہے، اور جس قدر اس كى سمجھ ہو گى اسى قدر انسانى طب كے علم كى ادائيگى بہتر ہو گى، اور طبيب لوگوں كو بيماريوں اور آفتوں سے بچانے ميں كامياب ہو گا.

اس ليے ڈاكٹر كے ليے انسانى بدن كى تشريح اور تبيين كرنے والے خاكوں كو پڑھنے ميں كوئى حرج نہيں، چاہے وہ خاكہ مرد كا ہو يا عورت كا اور ان شاء اللہ اسى طرح ميڈيكل كے طالب علم كے ليے امتحانات ميں خاكوں كے استعمال، اور حياتى علوم كے استعمال ميں بھى كوئى حرج نہيں تا كہ يہ چيز اسے اچھى طرح سمجھنے ميں معاون ثابت ہو، اور اس اہم علم ميں طالب علم كى مہارت زيادہ ہو سكے.

اگر ضرورت پيش آئے تو ہمارى شريعت ميں مرد ڈاكٹر كے ليے عورت كا علاج كرنا جائز ہے.

ربيع بنت معوذ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہم نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ زخميوں كو پانى پلاتى اور ا ن كى مرہم پٹى كيا كرتى، اور انہيں مقتولوں كو مدينہ منتقل كرتى تھيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2882 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حديث كى شرح كرتے ہوئے فتح البارى ميں كہتے ہيں:

" اس حديث ميں اجنبى عورت كے ليے اجنبى مرد كا ضرورت كى بنا پر علاج معالجہ كرنے كا جواز پايا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: فتح البارى ( 6 / 52 ).

جس طرح كہ ہمارى شريعت ميں آيا ہے جو بچوں كى كھيل كود وغيرہ كے ليے تصاوير اور مجسمے كے جواز پر دلالت كرتا ہے، جس كى بچوں كو كھيل كود اور تعليم اور ادب سكھانےميں ضرورت پيش آئے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 9473 ) كے جواب ميں ديكھ سكتے ہيں.

اسى طرح علماء كرام كا فتوى بھى ہے جو ضرورت كى بنا پر شناختى كارڈ وغيرہ پر لگانے كے ليے تصوير بنانے كے جواز پردلالت كرتا ہے، اس كى تفصيل آپ سوال نمبر ( 34904 ) اور ( 39806 ) كے جوابات ميں ديكھ سكتے ہيں.

اور رہا مسئلہ جسم كے اعضاء كى عليحدہ عليحدہ تصوير بنانى مثلا سر، يا سينہ وغيرہ كى تو اكثر علماء كرام اس كو جائز سمجھتے ہيں، اس كے ليے آپ سوال نمبر ( 13633 ) كا مطالعہ كريں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ـ اور بالاولى ـ علم طب اور اس كے متعلقہ كى تعليم كے ليے خاكوں اور تصاوير كے استعمال كے جواز پر دلالت كرتا ہے.

اور ہمارى ويب سائٹ پر اس طرح كا فتوى سوال نمبر ( 10228 ) اور ( 13716 ) كے جوابات ميں بھى بيان ہو چكا ہے، ا سكا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب