سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

ايام تشريق كےروزوں كاحكم

سوال

ہر جمعرات كےدن روزہ ركھنا ميري عادت ہے ہوا يہ كہ ميں نے بارہ ذوالحجہ جمعرات كےدن روزہ ركھا، ميں نےجمعہ كےدن سنا كہ ايام تشريق ميں روزہ ركھنا جائز نہيں، اورجمعرات كا دن ايام تشريق ميں تيسرا دن تھا، كيا مجھ پر كچھ لازم آتا ہے كيونكہ ميں نےاس دن روزہ ركھا تھا ؟؟
اور كيا واقعي ايام تشريق كا روزہ ركھنا صحيح نہيں يا كہ ہم صرف عيد كے پہلے دن روزہ نہ ركھيں ؟؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

عيد الفطر اور عيدالاضحي كا روزہ ركھنا حرام ہے اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ميں ہے:

ابوسعيد خدري رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ( رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر اور يوم النحر كا روزہ ركھنے سے منع فرمايا) يوم النحر عيد الاضحي كا دن ہے . صحيح بخاري ( 1992 ) صحيح مسلم ( 827 )

علماء كرام كا اجماع ہے كہ ان دونوں دنوں كا روزہ ركھنا حرام ہے.

ايسے ہي عيد الاضحي كےبعد ايام تشريق كےتينوں ايام ميں بھي روزہ ركھنا حرام ہے ( وہ ايام گيارہ، بارہ اور تيرہ ذوالحجہ ہيں ) كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :

( ايام تشريق كھانےپينے اور اللہ تعالي كا ذكر كرنے كےدن ہيں ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1141 ) .

اور ابوداود ميں ابو مرۃ مولي ام ھاني سے روايت ہے كہ وہ عبداللہ بن عمرو كےساتھ اپنےوالد عمرو بن عاص رضي اللہ تعالي كےپاس گئے توانہوں نے ان دونوں كےسامنےكھانا پيش كيا اور كہنےلگے: كھاؤ، تووہ كہنےلگے ميرا تو روزہ ہے، توعمرو رضي اللہ تعالي كہنےلگے: كھاؤ ان ايام ميں نبي صلي اللہ عليہ وسلم ہميں روزہ نہ ركھنا كا حكم ديا كرتےتھے. سنن ابوداود ( 2418 )

امام مالك رحمہ اللہ كہتےہيں: يہ ايام تشريق كےدن تھے. علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .

ليكن اس حاجي كےليے ايام تشريق كےروزے ركھنا جائز ہيں جس كےپاس قرباني نہ ہو، عائشہ اور ابن عمر رضي اللہ تعالي عنھم بيان كرتےہيں كہ : ( ہميں ايام تشريق كےروزہ ركھنے كي اجازت نہيں دي گئي ليكن جو قرباني نہ پائے اسے اجازت ہے ) صحيح بخاري حديث نمبر ( 1998 ) .

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں:

حج قران اور حج تمتع كرنا والا اگر قرباني نہ پائے تواس كےليے ان تين ايام كےروزے ركھنےجائزہيں تا كہ روزے ركھنےسےقبل حج كا موسم ختم نہ ہو جائے، ليكن ان كےعلاوہ كسي دوسرے شخص كےليے ان ايام كےروزے ركھنا جائز نہيں، حتي كہ اگر كسي انسان كےذمہ مسلسل دو ماہ كےروزے بھي ہوں تو وہ عيد اور اس كےبعد تين دن تك روزہ نہ ركھے اور پھر بعد ميں اپنےروزے تسلسل كےساتھ مكمل كرے . ديكھيں فتاوي رمضان ( 727 ) .

اس كي مزيد تفصيل ديكھنےكےليے سوال نمبر ( 21049 ) اور ( 36950 ) كےجوابات ضرور ديكھيں .

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب