اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

توبہ کی قبولیت

سوال

مجھ سے ایک بہت بڑا گناہ سر زد ہو گیا ہے، میں نے اللہ سے اپنے گناہ کی بخشش بھی مانگی ہے، اور بہت دعا کی ہے کہ اللہ تعالی مجھے معاف کر دے، تو کیا اس گناہ سے میری توبہ قبول کر لی جائے گی؟ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری توبہ قبول نہیں ہوئی، اور میں ابھی بھی اللہ تعالی کے زیر غضب ہوں! تو کیا ایسے کچھ اشارے ہوتے ہیں جو قبولِ توبہ کی نشانی ہوں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ کمی کوتاہی اور بھول چوک انسان کی فطرت میں شامل ہے، کوئی بھی مکلف شخص اطاعت گزاری میں کمی کوتاہی، سہو، غفلت، خطا، بھول، گناہ اور پاپ سے منزّہ نہیں ہے، تو ہم سب کمی کوتاہی اور گناہوں کا شکار رہتے ہیں، ہم سے پاپ سر زد ہو جاتے ہیں، ہم کبھی تو اللہ تعالی کی جانب خوب راغب ہوتے ہیں تو کبھی اللہ کی جانب منہ موڑ کر ہی نہیں دیکھتے، کبھی تو اللہ تعالی کو اپنا نگہبان سمجھ لیتے ہیں اور کچھ لمحے بعد ہم پر غفلت کا تسلط قائم ہو جاتا ہے، ہم میں سے کوئی بھی گناہوں سے پاک صاف نہیں ہے، اور چونکہ ہم معصوم عن الخطا نہیں ہیں تو اسی لیے ہم سے گناہ سر زد ہونا ضروری امر ہے، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور پھر اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں گے) مسلم: (2749)

اسی طرح ایک اور روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اولاد آدم کا ہر فرد خطا کار ہے اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں) اس حدیث کو امام ترمذی : (2499) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

اور یہ اللہ تعالی کی کمزور انسانوں پر رحمت ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے، پھر جب کبھی بھی گناہوں اور نافرمانیوں کا غلبہ ہو تو اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنی طرف رجوع اور انابت کرنے کا حکم بھی دیا، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کے لئے بہت مشقت والی بات تھی؛ کیونکہ انسان اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے سے ہمیشہ قاصر رہتا، انسان اللہ تعالی سے حصولِ معافی اور مغفرت کے لئے مایوس ہو جاتا؛ اس لیے توبہ تو بشریت میں پائے جانے والے نقص اور انسانیت میں پائی جانے والی کمی کوتاہی کا لازمی تقاضا ہے۔

اللہ تعالی نے اس امت کے ہر طبقے پر توبہ کو واجب قرار دیا ہے؛ چاہے ان کا تعلق نیکیوں کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں میں سے ہو، یا درمیانے درجے کے مومنوں میں سے ہو یا حرام کاموں میں ملوث افراد سے ان کا تعلق ہو، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

  وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعاً أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ  

 ترجمہ: اے مومنو! تم سب اللہ کی جانب رجوع کرو، تا کہ تم فلاح پا جاؤ۔[النور: 31]

ایک اور مقام پر فرمایا:

يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا 

ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے سامنے صدق دل سے سچی توبہ کرو ۔[التحريم: 8]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اے لوگو! تم اللہ سے توبہ مانگو اور استغفار کیا کرو؛ کیونکہ میں ایک دن میں سو بار توبہ کرتا ہوں) اس حدیث کو امام مسلم: (2702) نے اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی کی رحمت اور نرمی بندوں پر بہت وسیع ہے، اللہ تعالی کی ذات حلیم ہے اسی لیے اللہ تعالی ہمیں فوری طور پر اپنی پکڑ میں نہیں لیتا، نہ ہی ہم پر عذاب مسلط فرماتا ہے، بلکہ ہمیں مہلت دیتا ہے، اللہ تعالی نے اپنے نبی جناب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا کہ لوگوں کو اللہ تعالی کی رحمت اور کرم بتلائیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

  قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعاً إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ  

 ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے [الزمر: 53]

اسی طرح اپنے بندوں کے ساتھ شفقت بھرا تعامل کرتے ہوئے فرمایا:

 أَفَلا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ

 ترجمہ: تو کیا وہ اللہ کے سامنے توبہ نہیں کرتے اور اللہ سے بخشش نہیں مانگتے! اللہ تعالی تو نہایت بخشنے والا اور بہت زیادہ مہربان ہے۔[المائدۃ: 74]

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى 

 ترجمہ: اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو میں یقیناً اس سے بہت زیادہ درگزر کرنے والا ہوں۔ [طہ: 82]

ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ

 ترجمہ: جب ان سے کوئی بے حیائی کا کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فوراً اللہ کا ذکر اور اپنے گناہوں کے لئے استغفار کرتے ہیں فی الواقع اللہ تعالی کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ دیدہ دانستہ کسی برے کام پر نہیں اڑتے ۔ [آل عمران: 135]

ایک اور مقام پر فرمایا:

 وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءاً أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُوراً رَحِيماً

 ترجمہ: جو شخص کوئی برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا، مہربانی کرنے والا پائے گا۔ [النساء: 110]

بلکہ اللہ تعالی نے تو بد ترین شرک اور گھٹیا ترین گناہ کرنے والوں کو بھی توبہ کی دعوت دی، یعنی ان لوگوں کو بھی توبہ کی طرف بلایا جو عیسی علیہ السلام کو -نعوذ باللہ-اللہ کا بیٹا قرار دیتے تھے، اللہ تعالی ظالموں کی اس بات سے منزّہ اور مبرّا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 أَفَلا يَتُوبُونَ إِلَى اللَّهِ وَيَسْتَغْفِرُونَهُ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ 

 ترجمہ: تو کیا وہ اللہ کے سامنے توبہ نہیں کرتے اور اللہ سے بخشش نہیں مانگتے! اللہ تعالی تو نہایت بخشنے والا اور بہت زیادہ مہربان ہے۔ [المائدۃ: 74]

اسی طرح اللہ تعالی نے منافقوں کے لیے بھی توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے؛ حالانکہ منافقین اعلانیہ کفر کرنے والے کافروں سے بھی بد تر ہوتے ہیں، ان کے لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:

إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرا (145) إِلا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْراً عَظِيماً

ترجمہ: بے شک منافق لوگ آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ہرگز ان کا کوئی مدد گار نہ پائے گا۔ [145] ہاں! ان میں سے جن لوگوں نے توبہ کر لی اور اپنی اصلاح کر لی اور اللہ (کے دین) کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور اللہ کے لیے دین کو خالص کر لیا تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ تعالی عنقریب مومنوں کو بہت بڑا اجر عطا فرمائے گا ۔[النساء:145-146]

نیز اللہ تعالی کی صفات میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالی توبہ قبول فرماتا ہے اور بندے کے توبہ کرنے پر خوش بھی ہوتا ہے، یہ اللہ تعالی کا خاص کرم اور فضل و احسان ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُو عَنِ السَّيِّئَاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ  

 ترجمہ: وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کر رہے ہو (سب) جانتا ہے۔ [الشورى:25]

ایک اور مقام پر فرمایا:

 أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

 ترجمہ: کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور (ان کے) صدقات قبول کرتا ہے اور یہ کہ وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ [التوبۃ: 104]

ابو حمزہ انس بن مالک انصاری خادم رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ مایوسی کے بعد اسے اچانک مل گیا ہو حالانکہ وہ کسی چٹیل میدان میں گم ہو گیا تھا) متفق علیہ

جبکہ صحیح مسلم : (2747)کی ایک روایت میں ہے کہ: (یقیناً جب اللہ کا کوئی بندہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے تو اس کو اپنے بندے کی توبہ پر اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی تم میں سے کسی کو اس وقت ہوتی ہے کہ وہ بیاباں جنگل میں اپنی سواری پر تھا اور سواری اس سے گم ہو جائے حالانکہ اس کا کھانا اور پینا اسی پر تھا تو وہ سواری سے ناامید ہو کر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایہ میں لیٹ گیا کہ اب سواری نہیں ملے گی، وہ ابھی اپنی اسی حالت میں تھا کہ اپنی سواری کو اپنے پاس کھڑی ہوئی پاتا ہے تو وہ اس کی مہار پکڑ لیتا ہے پھر شدتِ مسرت میں مدہوش ہو کر کہہ جاتا ہے : اے میرے اللہ! تو میرا بندہ ، میں تیرا اللہ! یعنی بے پایاں خوشی کی بنا پر الفاظ الٹ کر دئیے)

سیدنا ابو موسی عبد اللہ بن قیس اشعری رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (اللہ عزوجل ،رات کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ دن کو گناہ کرنے والا توبہ کر لے، اور دن کو اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے، تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کر لے [یہ سلسلہ روزانہ چلتا رہے گا]حتی کہ سورج مغرب سے طلوع ہو گا) اس حدیث کو مسلم: (2759) نے روایت کیا ہے۔

ایسے ہی ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی بندے کی توبہ اس وقت تک قبول فرماتا ہے جب تک موت کا غرغرہ شروع نہ ہو جائے) ترمذی: (3537) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

دوم:

توبہ کی برکتیں فوری اور تاخیر دونوں طرح کی ہیں اسی طرح ظاہری اور باطنی بھی توبہ کی برکتیں ہیں، تو بہ کا ثواب یہ ہے کہ دل پاک ہو جائے، گناہ مٹ جائے اور نیکیاں بڑھ جائیں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهَارُ يَوْمَ لا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

 ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ اس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے : "اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر دے اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے" [التحریم: 8]

توبہ کے ثواب میں ایسی خوش حال زندگی بھی شامل ہے جو کہ ہمیشہ ایمان، قناعت، رضا مندی، اطمینان، اور سکینت کے سائے تلے پروان چڑھے، اور جس میں سینہ ہر قسم کے کینے سے محفوظ رہے، فرمانِ باری تعا لی ہے:

 وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعاً حَسَناً إِلَى أَجَلٍ مُسَمّىً وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ

 ترجمہ: اور تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اس کے سامنے توبہ کرو، وہ تم کو وقت مقرر تک اچھا سامان زندگی دے گا اور ہر زیادہ عمل کرنے والے کو زیادہ ثواب دے گا۔ [ھود: 3]

توبہ کے ثواب میں آسمان سے برکتیں نازل ہوتی ہیں اور زمین سے بھی برکتیں بر آمد ہوتی ہیں، توبہ کی بدولت مال و دولت سمیت اولاد اور پیداوار میں بھی برکت آتی ہے، انسانی جسم تندرست رہتے ہیں، آفات سے تحفظ ملتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی نے ھود علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

 وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَاراً وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ 

 ترجمہ: اور اے میری قوم! اپنے پروردگار سے معافی مانگو، پھر اسی کے آگے توبہ کرو وہ تم پر موسلا دھار بارش برسائے گا اور تمہاری موجودہ قوت میں مزید اضافہ کرے گا تم مجرموں کی طرح منہ نہ پھیرو ۔[ھود: 52]

سوم:

کوئی بھی شخص توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، توبہ کرنے والوں کا یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک سورج مغرب سے طلوع نہیں ہو جاتا۔

کوئی راہ زنی سے توبہ کرتا ہے، تو کوئی زنا سے توبہ کرتا ہے، کوئی شراب نوشی سے توبہ کرتا ہے، اور کوئی نشہ آور اشیا سے توبہ کرتا ہے، کچھ لوگ قطع رحمی سے توبہ کرتے ہیں، اور کچھ نمازیں چھوڑنے یا نمازوں کی باجماعت ادائیگی میں سستی سے توبہ کرتے ہیں، کوئی والدین کی نافرمانی سے تائب ہوتا ہے، اور کوئی سود اور رشوت خوری سے تائب ہوتا ہے، کوئی چوری کرنے سے توبہ کرتا ہے تو کوئی قتل و غارت سے توبہ کرتا ہے، کچھ لوگوں کا ناحق مال ہڑپ کرنے سے توبہ کرتے ہیں، اور کچھ سگریٹ نوشی سے توبہ کرتے ہیں، ان تمام تائب ہونے والوں کو توبہ مبارک ہو؛ کیونکہ سچی توبہ کرنے کی بدولت یہ سب آج گناہوں سے ایسے ہی پاک صاف ہو گئے ہیں کہ گویا آج ان کی پیدائش ہوئی ہو!

ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم سے پہلی امت میں ایک آدمی تھا، اس نے ننانوے قتل کیے تھے، تو اس نے دھرتی کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اس کو ایک راہب کا پتا بتایا گیا، چنانچہ وہ اس کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ: وہ ننانوے آدمیوں کو قتل کر چکا ہے کیا اب اس کے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ راہب نے کہا: نہیں ، تو اس پر اس نے راہب کو بھی قتل کر ڈالا اور سو پورے کر دئیے ، پھر اس نے زمین کے سب سے بڑے عالم کے بارے میں دریافت کیا تو اس کو ایک عالم آدمی کا پتا بتلایا گیا، تو اس نے اس سے پوچھا کہ: وہ سو آدمیوں کا قتل کر چکا ہے، کیا اس کے لیے توبہ کا امکان ہے؟ تو اس نے کہا: ہاں ، قاتل کے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ تم فلاں بستی میں چلے جاؤ وہاں کے باسی اللہ کی بندگی کرتے ہیں، تم بھی ان کے ساتھ رہ کر اللہ کی بندگی میں مشغول ہو جاؤ اور اپنے علاقے میں واپس مت آنا، کیونکہ وہ برا علاقہ ہے۔ اس پر وہ قاتل اسی بستی کی جانب چل پڑا، حتی کہ جب اس نے آدھا راستہ طے کر لیا، اسے موت نے آ لیا، اور اس [کی روح قبض کرنے ]کے بارے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہو گیا ، رحمت کے فرشتوں نے کہا: یہ صدق دل کے ساتھ توبہ کر کے اللہ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اور عذاب کے فرشتوں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ اس نے کبھی نیکی کا کام کیا ہی نہیں! اسی اثنا ان کے پاس (اللہ کے حکم سے) ایک فرشتہ انسانی شکل میں آیا ، دونوں قسم کے فرشتوں نے اسے ثالثی مان لیا تو اس انسان نما فرشتے نے کہا، دونوں زمینوں کے درمیانی علاقہ کی پیمائش کر لو تو جس بستی کی طرف زیادہ قریب ہو گا تو وہ اسی بستی کا باشندہ متصور ہو گا تو انہوں نے پیمائش کی تو اسے اس علاقہ کے زیادہ قریب پایا، جس کے ارادے سے وہ جا رہا تھا ، اس لیے اس کی روح کو رحمت کے فرشتوں نے اپنے قبضے میں لے لیا) متفق علیہ

صحیح مسلم: (2716)کی ہی ایک روایت میں ہے کہ: (وہ نیک بستی کی جانب ایک بالشت قریب تھا، تو اسے نیک بستی والوں میں شامل کر لیا گیا)

جبکہ بخاری: (3470)کی ایک روایت میں ہے کہ: (اللہ تعالی نے اس بستی کی جانب زمین کو کہا تو سکڑ جا، اور دوسری جانب زمین کو حکم دیا تو پھیل جا، اور فرمایا: ان دونوں کے درمیانی فاصلے کو ماپ لو، تو اس کو نیک بستی کی جانب ایک بالشت زیادہ قریب پایا گیا تو اس کو بخش دیا گیا۔)

صحیح مسلم : (2766)کی ایک اور روایت میں ہے کہ: (وہ [جب مرتے ہوئے گرا] تو اپنے سینے کے بل نیک بستی کی جانب گھسٹ کر آگے ہوا تھا)

توبہ کا معنی اللہ کی جانب رجوع کرنا ، اور گناہ ترک کر کے گناہ سے نفرت اور پھر اپنے کیے پر ندامت کو توبہ کہتے ہیں۔ اس بارے میں امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" کسی بھی گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے؛ چنانچہ اگر کسی گناہ کا تعلق اللہ تعالی اور بندے کے درمیان ہے؛ حقوق العباد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تو پھر اس گناہ سے توبہ کی تین شرائط ہیں:

پہلی شرط: گناہ کو چھوڑ دے

 دوسری شرط: گناہ کرنے پر ندامت کرے۔

تیسری شرط: ہمیشہ کے لئے گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرے۔

اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو اس کی توبہ صحیح نہ ہو گی۔ اور اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو پھر ان تین شرائط کے ساتھ ایک چوتھی شرط بھی ہے کہ: متعلقہ شخص سے معافی مانگ لے ، معافی کے لئے اگر مال وغیرہ چوری کیا تھا تو پھر یہ مال اسے واپس کرے، اور اگر کوئی تہمت وغیرہ لگائی تھی تو اپنے آپ کو اس آدمی کے سامنے بدلہ دینے کے لئے پیش کرے یا اس سے معافی مانگ لے، اور اگر اس کی غیبت کی ہوئی ہو تو تب بھی اس سے معافی مانگے۔

یہ بھی واجب ہے کہ انسان تمام تر گناہوں سے توبہ کرے، لیکن اگر کوئی چند گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اس کی توبہ اہل حق کے ہاں صحیح ہو گی، اور جس گناہ سے توبہ کر لی ہے اس کی توبہ ہو جائے گی، جبکہ بقیہ گناہوں سے توبہ کرنا اس پر باقی رہے گا" ختم شد
اس بنا پر اگر اس شخص میں توبہ کرنے کی شرائط پائی جاتی ہیں تو بہت زیادہ امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ ان شاء اللہ قبول فرما لے گا۔ اب انسان کو ایسے وسوسوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ جو اسے توبہ کی قبولیت کے متعلق شکوک میں ڈالیں؛ کیونکہ ایسے وسوسے شیطان کی جانب سے ہیں، اور یہ وسوسے ان باتوں سے بھی متصادم ہیں جو ہمیں اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلائی ہیں کہ جب کوئی توبہ کرنے والا شخص سچی توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: ( 624 ) اور ( 14289 )  کا جواب ضرور ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات