سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

كيا كسى بيمار شخص كى جانب سے رات كو ماہ رمضان ميں رات كو روزہ ركھا جا سكتا ہے ؟

سوال

اگر ميرے خاندان كا كوئى شخص بيمار ہو تو كيا ميرى اور اس كى جانب سے چوبيس گھنٹے كا روزہ ( سحرى كھائے بغير ) ركھنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جو مريض روزہ نہيں ركھ سكتا اس كى دو حالتيں ہيں:

يا تو وہ مريض عارضى بيمارى ميں مبتلا ہے: ايسا مريض روزہ نہ ركھے ليكن بيمارى سے شفاحاصل ہونے كے بعد اسے قضاء ميں روزے ركھنا ہونگے.

يا پھر وہ مريض دائمى بيمارى كا شكار ہو: ايسا مريض روزہ نہ ركھے اور ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائيگا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 37761 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

دوم:

روزہ صرف دن كے وقت طلوع فجر سے ليكر غروب آفتاب تك ہوتا ہے، رات روزے كا وقت نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تمہارے ليے رمضان كى راتوں ميں اپنى بيويوں سے صحبت كرنا حلال كر ديا گيا ہے، وہ تمہارے ليے لباس ہيں اور تم ان كے ليے لباس ہو، اللہ تعالى نے جان ليا ہے كہ تم اپنے نفسوں كى خيانت كرتے ہو، چنانچہ اس نے تمہارى طرف توجہ كرتے ہوئے تمہيں معاف كر ديا، لہذا تم اب ان سے مباشرت كرو اور جو كچھ اللہ نے لكھ ديا ہے اسے تلاش كرو، اور رات كے سياہ دھاگے سے فجر كا سفيد دھاگہ ظاہر ہونے تك كھاتے پيتے رہو، پھر تم رات تك روزہ پورا كرو البقرۃ ( 187 ).

اس آيت كريمہ ميں روزے كا وقت ـ جو كہ دن ـ اور روزہ كھولنے كا وقت ـ جو كہ رات ہے ـ بيان ہوا ہے، چنانچہ كسى بھى حالت ميں رات كو روزے كے وقت قرار دينا صحيح نہيں.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ آپ نے وصال سے منع فرمايا ہے.

ديكھيں: صحيح بخارى حديث نمبر ( 1962 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1102 ).

وصال يہ ہے كہ رات كو روزہ افطار نہ كيا جائے بلكہ رات اور دن مسلسل روزہ ہى رہے.

امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" باب ہے وصال كے متعلق، اور اس قول كے متعلق كے رات ميں روزہ نہيں ہوتا، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

پھر رات تك روزہ مكمل كرو .

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان پر رحمت و شفقت كرتے ہوئے انہيں اس سے منع فرمايا ہے "

سوم:

بدنى عبادات ميں اصل يہى ہے كہ وہ اپنى جانب سے ادا كرے، اس ميں كسى كى طرف سے نيابتا داخل نہيں ہو سكتى، چنانچہ جائز نہيں كہ كسى شخص كى جانب سے كوئى دوسرا شخص نماز ادا كرے، اور نہ ہى روزہ ركھے اس پر علماء كرام كا اجماع ہے.

بلكہ نيابتا تو حج اور عمرہ ہو سكتا ہے، ليكن وہ بھى ايسے شخص كى جانب سے جو اپنى زندگى ميں اس سے عاجز ہو، جيسا كہ صحيح اور صريح نصوص ميں بيان ہوا ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہى نماز تو اس ميں علماء كرام كا اجماع ہے كہ كوئى شخص بھى كسى دوسرے كى جانب سے نہ تو فرضى اور نہ ہى سنت اور نفلى نماز ادا كر سكتا ہے، نہ كسى زندہ شخص كى جانب سے، اور نہ ہى كسى فوت شدہ كى جانب سے، اور اسى طرح كسى زندہ كى جانب سے بھى اس كى زندگى ميں روزہ ركھنا كفائت نہيں كريگا، اس ميں اجماع ہے، كوئى اختلاف نہيں.

ليكن جو شخص فوت ہو چكا ہو اور اس كے ذمہ روزے ہوں تو اس ميں علماء كرام كا دور قديم اور جديد سے اختلاف پايا جاتا ہے " انتہى.

ديكھيں: الاستذكار ( 3 / 340 ).

خلاصہ:

روزہ دن كو ہوگا نہ كہ رات ميں، اور رات كا روزہ ركھنا صحيح نہيں.

اور كسى كے ليے بھى دوسرے مريض شخص كى جانب سے روزہ ركھنا جائز نہيں، چاہے وہ مريض شفايابى سے نااميد ہى ہو، بلكہ شفايابى سے نااميد مريض ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلا دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب