سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

بيٹا حج كرنا چاہتا ہے ليكن باپ كہتا ہے پہلے شادى كرو

سوال

كيا ميں درج ذيل اسباب كى بنا پر والد كا نافرمان بنوں گا:
1 ـ ميرے والد صاحب ( رحمہ اللہ ) ميرى شادى كرنا چاہتے تھے اور ميں انكار كرتا رہا كيونكہ ميں اپنى يونيورسٹى كى تعليم مكمل كرنا چاہتا تھا.
2 ـ ميں نے جو مال اكٹھا كيا تھا وہ صرف عقد نكاح كے ليے كافى تھا يہ علم ميں رہے ميں ملازم بھى ہوں.
3 ـ پھر ميں تعليم مكمل كرنے كے ليے سفر بھى نہيں كر سكتا تھا، اس ليے ميں نے فيصلہ كيا كہ كوئى چھوٹا سا كام كرتا ہوں جس سے نفع ہو اور ميں اس سے حج كر لوں، اس طرح ميں نے زمين كا ايك ٹكڑا والد كے ساتھ مل كر خريد ليا، جس كى قيمت حج كے ليے بھى كافى نہ تھى، ہمارى نيت تھى كہ جس گھر ميں ہم رہ رہے ہيں اسے بدل ليں، كيونكہ پڑوسى اچھے نہ تھے اور اذيت ديتے تھے، اللہ انہيں ہدايت دے.
5ـ والد صاحب اس رقم سے مجھے حج كرنے سے منع كرتے اور كہتے كہ يہ مال ان كا ہے اور ميرى ملكيت نہيں.
6 ـ كوشش كے باوجود بھى كوئى فائدہ نہ ہوا تو ميں نے كہا ميں شادى سے قبل حج كرونگا، اور والد صاحب كہنے لگے پہلے شادى كرو.
7 ـ اب رمضان المبارك ميں وہ فوت ہو گئے ہيں اور ان كى موت كے بعد مجھ سے گھر والے مطالبہ كر رہے ہيں كہ والد كا ارادہ پورا كيا جائے، اور ميں انہيں كہتا ہوں كہ پہلے حج كرونگا.
ـ اب وہ زمين اتنى رقم دے رہى ہے كہ اس سے حج ہو سكتا ہے، اور ہم نے قرض بھى ادا كر ديا ہے ( والد كى موت سے قبل زمين كى قيمت سے قرض ادا كر چكے ہيں ).

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علماء كرام كےصحيح قول كے مطابق حج فورا فرض ہے جيسا كہ اس كى تفصيل سوال نمبر ( 41702 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے.

اور اگر اتنا مال ہو كہ يا تو وہ حج كے ليے كافى ہے يا پھر اس سے شادى ہو سكتى ہے، تو پھر اگر وہ شادى كا ضرورتمند ہے اور حرام ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو شادى كو حج پر مقدم كيا جائيگا، اور اگر شادى كى ضرورت نہيں تو پھر حج مقدم كيا جائيگا.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جب نكاح كى ضرورت ہو اور اسے اپنے آپ كو مشقت ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو پھر شادى كو مقدم كيا جائيگا، كيونكہ يہ اس پر واجب ہے، اور اس كے بغير كوئى چارہ نہيں، اور يہ اس كے نفقہ كى طرح ہے، اور اگر خدشہ نہ ہو تو حج كو مقدم كيا جائيگا؛ كيونكہ نكاح نفل ہے، اس ليے نفل كو فرضى حج پر مقدم نہيں كيا جائيگا " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 5 / 12 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا استطاعت ركھنے والے كے ليے حج كو شادى كے بعد تك مؤخر كرنا جائز ہے، كيونكہ اس دور ميں نوجوان فتنہ و فساد كا شكار ہے چاہے وہ بڑا فتنہ ہو چھوٹا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" بلاشك و شبہ ضرورت اور شہوت كى صورت ميں شادى حج سے اولى ہے، كيونكہ جب انسان ميں شديد قسم كى شہوت ہو تو پھر اس كے ليے شادى كرنا اس كى ضروريات زندگى ميں شامل ہوتى ہے، اور وہ اس حالت ميں كھانے پينے كى طرح ہى ہے اس ليے جسے شادى كى ضرورت ہو اور اس كے پاس شادى كے ليے مال نہ ہو تو اسے زكاۃ دينى جائز ہے تا كہ وہ اس سے شادى كر سكے، جس طرح كسى فقير كو زكاۃ دى جاتى ہے تا كہ وہ اپنى ضروريات زندگى كھانا اور لباس وغيرہ زكاۃ كے مال سے خريد سكے.

اس بنا پر ہم كہتے ہيں كہ: اگر تو وہ نكاح كا محتاج اور ضرورتمند ہے تو پھر وہ حج پر شادى كو مقدم كرے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے حج فرض ہونے ميں استطاعت كى شرط ركھى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

" اور لوگوں پر اللہ كے ليے بيت اللہ كا حج كرنا فرض ہے جو وہاں تك جانے كى استطاعت ركھتا ہے " آل عمران ( 97 ).

ليكن اگر وہ ايسا نوجوان ہے جس كے ليے اہم نہيں كہ وہ اس سال شادى كرے يا بعد ميں تو اس كے ليے حج كو مقدم كرنا ہوگا كيونكہ يہاں نكاح كو مقدم كرنے كى ضرورت نہيں ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى منار الاسلام ( 2 / 375 ).

اس بنا پر اگر آپ شادى كو مؤخر كرنے ميں اپنے ليے كوئى خدشہ اور خطرہ محسوس نہيں كرتے تو پھر آپ پہلے حج كريں اللہ آپ كو نعم البدل عطا فرمائيگا؛ كيونكہ فريضہ حج دين اسلام كے عظيم فرائض ميں شامل ہوتا ہے.

آپ كو اس مسئلہ ميں اپنے والد كى مراد پورى كرنى ضرورى نہيں، نہ تو اس كى زندگى ميں اور نہ ہى موت كے بعد كيونكہ ايسا كرنا بغير كسى ضرورت كے حج ميں تاخير كا باعث بنےگا.

دوم:

آپ كو چاہيے تھا كہ آپ اپنے والد كو راضى كرتے اور تعليم مكمل كرنے كى بجائے شادى كر ليتے، امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے كہ جب والدين ميں سے كوئى ايك بھى حكم دے تو نكاح كرنا واجب ہے.

مرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيا والدين يا ان ميں سے كسى ايك كے حكم سے واجب ہے ( يعنى شادى كرنا ) ؟

امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں: اگر اس كے والدين اسے شادى كرنے كا حكم ديں: تو ميں اسے شادى كرنے كا حكم دوں، يا پھر وہ نوجوان ہو اور اسے اپنے آپ كو مشقت ميں پڑنے كا خدشہ ہو تو ميں اسے شادى كرنے كا حكم دوں "

تو انہوں نے والدين كے حكم كو نفس مشقت پڑنے كے برابر قرار ديا ہے " انتہى

ديكھيں: الانصاف ( 8 / 14 ).

سوم:

اس ميں كوئى حرج نہيں كہ باپ اپنے بيٹے كے مال سےحج كرے، بلكہ حرج اس ميں ہے كہ وہ بالكل كسى دوسرے كے مال سے حج كرے، ليكن اگر حج كے اخراجات نہ ہونے كى بنا پر اگر كوئى شخص حج نہ كرے تو كيا كسى دوسرے كے اخراجات كرنے كى بنا پر وہ اس پر قادر ہو گا يا نہيں، اور كيا اس كو حج كى ادائيگى كے ليے يہ مال قبول كرنا لازم ہو گا ؟

اس ميں علماء كا اختلاف ہے:

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

كسى دوسرے كے مال خرچ كرنے سے اس پر حج لازم نہيں ہوگا، اور نہ ہى وہ اس سے استطاعت والا بن جائيگا، چاہے وہ مال دينے والا اس كا كوئى قريبى رشتہ دار ہو يا كوئى اجنبى، اور چاہے وہ اسے سوارى اور زاد راہ دے يا اسے مال دے.

امام شافعى رحمہ اللہ سے مروى ہے: اگر اس كا بيٹا اسے مال دے جس سے وہ حج كر سكتا ہے تو اس پر حج كرنا لازم ہے؛ كيونكہ اس كے ليے حج كى ادائيگى بغير كسى مشقت اور ضرر كے ممكن ہوئى ہے، اس ليے اسے حج كرنا لازم آئيگا، بالكل اسى طرح كہ اگر زاد راہ اور سوارى ميسر ہو تو حج كى ادائيگى لازم ہوتى ہے.

اور ہمارى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" زاد راہ اور سوارى " حج واجب كرتى ہے.

اس ميں اس كى مليكت كى تعيين ہے، يا پھر اس كى ملكيت جس سے يہ حاصل ہو جائے، اس كى دليل يہ ہے كہ اگر خرچ كرنے والا كوئى اجنبى ہو، اور اس ليے كہ وہ زاد راہ اور سوارى كا مالك نہيں اور نہ ہى اس كى قيمت كا مالك ہے، تو اس ليے اس پر حج واجب نہيں ہوگا، بالكل ايسے ہى جيسے اگر اس كا بيٹا اپنے والد كو اخراجات دے.

ہم يہ تسليم نہيں كرتے كہ اس كو مشقت و احسان لازم نہيں آتا، اور اگر ہم اسے تسليم كر ليں تو پھر والدہ كے خرچ كرنے سے باطل ہو جائيگا، اور خرچ كرنا اس شخص پر احسان ہے جس كے ليے خرچ كيا جا رہا ہے " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 3 / 87 ).

جواب كا ماحاصل يہ ہوا كہ:

آپ كو حج كى ادائيگى ميں جلدى كرنى چاہيے جب آپ اپنے آپ كو حرام ميں پڑنے كا كوئى خدشہ نہ ہو، اور شادى ميں تاخير كر ديں، ليكن اگر حرام ميں پڑنے كے خدشہ كى صورت ميں شادى مقدم كريں، اور آپ پہلے شادى كرنے كے معاملہ ميں آپ نے جو اپنے والد كى نافرمانى كى ہے اس پر توبہ و استغفار كريں.

اللہ سے دعا ہے وہ آپ كو توفيق فرمائے اور صحيح راہنمائى كرے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب