الحمد للہ.
اول:
پانی اور جرابوں کے بارے میں اصل حکم تو یہ ہے کہ یہ پاک ہوتی ہیں، چنانچہ محض شک کی بنیاد پر ان کے نجس ہونے کا حکم نہیں لگایا جائے گا، لہذا جب تک آپ کو جرابوں پر نجاست لگنے کا یقین نہ ہو جائے تو پھر آپ نجاست کو تلاش کر کے اسے زائل کرنے میں وقت صرف مت کریں۔
دوم:
جرابوں کو پاک کرنے کے دوران پانی اگر جلد تک پہنچ جاتا ہے تو اس سے کوئی مضائقہ نہیں پیدا ہوتا؛ آپ پھر بھی اپنی جرابوں پر مسح کر سکتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ آپ نے جرابیں مکمل وضو کے بعد پہنی ہوں۔
تاہم فقہائے کرام کی اس بارے میں مختلف آرا ہیں کہ موزے پر مسح کرنے کے لیے کیا یہ شرط ہے کہ موزہ پاؤں تک پانی نہ پہنچنے دے یا نہیں؟ تو کچھ اہل علم اس چیز کی شرط نہیں لگاتے، اور یہ حنبلی فقہائے کرام کا موقف ہے، جیسے کہ " مطالب أولي النهى" (1/131) میں ہے کہ:
"ساتویں شرط: جس پر مسح کیا جا رہا ہے اس میں چلنا عرف میں معروف ہو، یہ شرط نہیں ہے کہ جس پر مسح کیا جائے وہ قدم تک پانی سرایت نہ کرنے دے؛ کیوں کہ اس چیز نے وضو میں دھوئی جانے والی مکمل جگہ کو ڈھانپا ہوا ہے، اور اس میں مسلسل چلنا بھی ممکن ہے۔" مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔
جبکہ دیگر اہل علم اس کو شرط تسلیم کرتے ہیں، یہ شافعی فقہائے کرام کا موقف ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ "المجموع" (1/531) میں کہتے ہیں:
"کیا موزہ اتنا گہرا ہو کہ پانی سرایت کرنے کے لیے بھی مانع ہو؟ اس بارے میں امام الحرمین وغیرہ نے دو موقف ذکر کیے ہیں: پہلا موقف تو یہی ہے کہ یہ شرط ہے، لہذا اگر موزہ بُنا ہوا ہے تو اس پر پانی ڈالنے سے پانی اس میں سے گزر جاتا ہے تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسرا موقف یہ ہے کہ: یہ شرط نہیں ہے، چنانچہ اگر پانی موزے میں سے گزر بھی جاتا ہے تو اس پر مسح کرنا پھر بھی جائز ہے، اسی موقف کو امام الحرمین، اور غزالی نے اپنایا ہے؛ کیونکہ ایسے موزے سے بھی پاؤں ڈھک جاتا ہے۔ واللہ اعلم" مختصراً اقتباس مکمل ہوا۔
تو پہلا موقف راجح ہے؛ کیونکہ ایسی کوئی صحیح دلیل نہیں ملی جس میں جرابوں پر مسح کرنے کے لیے پانی کے سرایت نہ کرنے کی شرط ہو، اس لیے جب تک جراب کو جراب کہا جاتا ہے اور لوگ بھی اسے عام طور پر پہنتے ہیں تو اس پر مسح کرنا صحیح ہے۔
واللہ اعلم