اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

والدہ ملنے كے ليے بلاتى ہے ليكن بيٹى نہيں جا سكتى

91975

تاریخ اشاعت : 12-04-2013

مشاہدات : 5278

سوال

ميں ايك يورپى ملك ميں اپنے والدين سے دور رہتى ہوں، ميرے والد صاحب فوت ہو چكے ہيں، والدہ اور چار بہن بھائى عراق ميں رہتے ہيں، ميرے آٹھ بچے ہيں جن كى عمر دو برس سے ليكر تيرہ برس تك ہے، ميرى والدہ بہت بوڑھى اور بيمار ہيں وہ ہميشہ فون كر كے كہتى ہے كہ اسے آ كر مل جاؤ تا كہ موت سے قبل ميں تمہيں ديكھ سكوں.
ليكن ميرے ليے عراق جانا بہت مشكل ہے، ميں اپنى اولاد اور خاوند كو اكيلا نہيں چھوڑ سكتى، ميرا خاوند بھى اولاد كو اكيلے چھوڑ كر جانے پر راضى نہيں ہے، اور ميرا كوئى محرم بھى نہيں جس كے ساتھ ميں سفر كر سكوں، ميں والدہ كو پيسے بھيجتى رہتى ہوں، مجھے علم ہے كہ ميں نے اپنى والدہ كو راضى كرنا ہے، ليكن ميں بچوں كو ايك كافر ملك ميں اكيلا چھوڑ كر نہيں جا سكتى.
ميرا خاوند دن رات كام كرتا ہے، اور يہاں ميرا كوئى رشتہ دار بھى نہيں، مجھے كچھ پتہ نہيں چل رہا كہ ميں كيا كروں، كيا والدہ كى بات مان كر خاوند كى اجازت كے بغير اولاد كو اكيلا چھوڑ كر عراق چلى جاؤں ؟
يا كہ خاوند كى اطاعت كرتے ہوئے اولاد كے ساتھ يہاں ہى رہوں، برائے مہربانى آپ مجھے جلد جواب ديں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ميں اللہ تعالى سے دعا كرتا ہوں وہ آپ كى والدہ كو مكمل صحت و عافيت سے نوازے، اور آپ دونوں كو خير و بھلائى اور دين و دنيا كى سعادت و خوشبختى پر اكٹھا ركھے.

عزيز بہن خوش ہو جاؤ جب اللہ سبحانہ و تعالى آپ كى اپنى والدہ سے محبت و وفاء اور اسے راضى كرنے كى كوشش اور والدہ سے حسن سلوك كرنے كى كوشش و ارادہ ديكھے گا تو آپ كے ليے اپنے فضل و كرم سے اس كا اجروثواب بھى لكھ دے گا.

معاملات كى كنجى صبر ہے، كيونكہ صبر سے ہى مشكلات سے نجات حاصل ہوتى ہے، اور رغبت پورى ہو سكتى ہے، ہو سكتا ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو اس جدائى ميں مبتلاء ہى اس ليے كيا ہو كہ ديكھے آپ دونوں كتنا صبر كرتى ہيں، پھر اس مشكل اور امتحان سے نجات كے نتيجہ ميں آپ كے ليے آسانى پيدا كر دے اور آپ ايسے ايك دوسرے سے ملاقات كريں اور مل جائيں كہ آپ كو وہم و گمان بھى نہ ہو، اور اللہ تعالى آپ پر اپنى كرتے ہوئے كچھ عرصہ بعد والدہ كے قريب كر دے.

ليكن ميں آپ كو ايك سلسلہ ميں كچھ اہم شرعى احكام كى تنبيہ كرنا چاہتا ہوں:

1 ـ يہ ياد دہانى اور تاكيد كہ عورت كا بغير محرم سفر كرنا حرام ہے.

امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" علماء كرام كا اس ميں كوئى اختلاف نہيں كہ غير فرضى سفر كے علاوہ باقى سفر ميں عورت خاوند يا محرم كے بغير سفر نہيں كر سكتى " انتہى

منقول از: فتح البارى ( 4 / 76 ).

اس كى مزيد تفصيل ہمارى اسى ويب سائٹ پر درج ذيل سوالات كے جوابات ميں بيان ہو چكى ہے، آپ ان كا مطالعہ ضرور كريں:

سوال نمبر ( 9370 ) , ( 25841 ) ، ( 47029 ) ، ( 82392 ).

2 ـ اگر بيوى كے جانے ميں كچھ خرابياں پيدا ہوتى ہوں مثلا اولاد كے بگڑنے كا خدشہ يا پھر بيوى كى زندگى كا مسئلہ كہ اس كے ملك ميں امن و امان خراب ہو، يا ساتھ جانے كے ليے كوئى محرم نہ ہو جبكہ خاوند كام ميں مشغول ہو، تو بيوى كو اپنے والدين سے ملنے كے ليے جانے سے خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے.

لہذا اس صورت ميں عورت كے ليے اپنے خاوند كى مخالفت كرتے ہوئے بغير اجازت سفر كرنا جائز نہيں ہوگا، ابن منذر رحمہ اللہ نے اجماع نقل كرتے ہوئے كہا ہے كہ:

" اس پر اجماع ہے كہ آدمى اپنى بيوى كو ہر قسم كے سفر سے روكنے كا حق ركھتا ہے، صرف فرضى حج كے سفر پر جانے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے "

ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 77 ).

يہ اس سفر ميں حكم ہوگا جب كے نتيجہ ميں خرابي پيدا ہوتى ہو.

اور اگر سفر ان سب خرابيوں سے مامون ہو، اور محرم بھى پايا جائے تو پھر خاوند كو حق نہيں كہ وہ بيوى كو اپنے والدين سے ملنے اور صلہ رحمى كرنے سے روكے، جس سے مقصد پورا ہوتا ہو، كيونكہ والدين كے ساتھ حسن سلوك اور صلہ رحمى كرنا سب سے زيادہ واجب چيز ہے.

بيمار ماں كى بيمار پرسى اور تيمار دارى كرنا بلاشك و شبہ ماں سے حسن سلوك اور صلہ رحمى كہلاتا ہے، اور خاص كر جب والدہ بيمارى كى حالت ميں بيٹى سے كہہ رہى ہو كہ موت آنے سے قبل اسے آ كر مل جاؤ، اور بيٹى كو ملے ہوئے بھى ايك لمبا اور طويل عرصہ ہو چكا ہو.

الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:

" خاوند كو نہيں چاہيے كہ وہ اپنى بيوى كو اپنے بيمار والدين كى تيمار دارى اور بيمار پرسى اور ملنے كے ليے جانے سے روكے؛ كيونكہ بيوى كو انہيں ملنے سے روكنا والدين كے ساتھ قطع رحمى كہلائيگا، اور پھر بيوى كو اپنے خاوند كى مخالفت پر ابھارنے كا باعث بنےگا، حالانكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے تو حسن معاشرت كا حكم ديا ہے، اور بيوى كو والدين سے نہ ملنے دينا حسن معاشرت نہيں " انتہى

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 110 ).

اور مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے خاوند پر اپنى بيوى كے ساتھ حسن معاشرت كرنا واجب ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم ان عورتوں سے حسن معاشرت اختيار كرو .

اور حسن معاشرت شامل ہے كہ خاوند اپنى بيوى كو والدين سے ملنے اور ان سے صلہ رحمى كرنے كى اجازت دے، غلط فہمى اس ميں حائل نہيں ہونى چاہيے خاص كر دنياوى معاملات ميں حائل نہ ہو.

ليكن اگر بيوى كا اپنے والدين سے ملنے ميں كوئى خرابى پيدا ہوتى ہے تو پھر خاوند كو روكنے كا حق حاصل ہے؛ اس ليے خرابى كو دور كرنا مصلحت لانے پر مقدم ہوتا ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 25 / 387 ).

يہاں ايك سوال پيدا ہوتا ہے كہ اگر خاوند اپنى بيوى كو والدين سے ملنے كے ليے نہ جانے دينے پر مصر ہو تو كيا بيوى اپنے خاوند كى مخالفت كرتے ہوئے والدين كو ملنے جا سكتى ہے يا نہيں ؟

اس ميں علماء كرام كے دو قول ہيں جن كى تفصيل ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 83360 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، آپ اس كا مطالعہ كريں.

ہم يہ اختيار نہيں كرينگے كہ عورت اپنے خاوند كى مخالفت كرتے ہوئے خاوند كى اجازت كے بغير گھر سے نكلے كيونكہ اس ميں گھر خاندان اورخاوند اور بيوى كے تعلقات پر بہت زيادہ اثر پڑتا ہے، اس ليے اس خرابى كو دور كرنا والدين كے ملاقات كى مصلحت لانے سے زيادہ بہتر ہے.

خاص كر انتظار كرنا اور خاوند كے ساتھ اس سلسلہ ميں بات چيت كرے ممكن ہے وہ بيوى كو اپنى والدہ سے ملنے كى اجازت دے دے، كيونكہ حسن آداب اور بہتر بات چيت اور اچھى كلام اور اچھے طريقہ اختيار كرنے پر اللہ سبحانہ و تعالى اپنے حكم سے دل نرم كر ديتا ہے، ان شاء اللہ اسے اجازت دى توفيق مل جائيگى.

مزيد آپ سوال نمبر ( 1426 ) اور ( 10680 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

3 ـ ہم يہ ياد دلاتے جائيں كہ ہمارى اسى ويب سائٹ پر سوال نمبر ( 11793 ) اور ( 14235 ) كے جوابات ميں كفار كے ملك ميں رہائش اختيار كرنے سے اجتناب كرنے كا كہا گيا ہے كيونكہ كفريہ ممالك ميں رہائش اختيار كرنے كى بنا پر دين اور اخلاق پر بہت غلط اثر پڑتا ہے.

ہم اميد كرتے ہيں كہ آپ ان سوالات كے جوابات كا مطالعہ كر كے ضرور مستفيد ہونگى، كيونكہ مسلمان كے ليے دين ہى اس كا اصل سرمايہ ہے، اس كے ليے اپنے دين ميں كوتاہى كرنا جائز نہيں، كوتاہى كر كے وہ كفريہ ممالك سے چند ٹكوں كى خاطر اپنا دين اور اولاد ضائع كر بيٹھے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب