جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

کسی اور کرنسی میں قرض کی ادائیگی کی جائز و ناجائز صورتیں

سوال

میں نے ایک دوست سے ڈالروں کی شکل میں قرض لیا، اور واپس قسط وار سعودی ریال میں کیا، اور اسی وقت ادئیگی کی قیمت کو معیار بنایا، تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بنیادی طور پر اصول یہی ہے کہ قرض کی ادائیگی اسی کرنسی میں کی جائے جس میں  مقروض شخص نےقرض  وصول کیاتھی، تاہم اگر ادائیگی کے وقت فریقین کسی دوسری کرنسی میں ادائیگی  پر متفق ہو جائیں   تو  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ  ادائیگی کے دن  کی قیمت کے مطابق رقم دی جائے، لہذا جس دن قرض لیا تھا اس دن  کی قیمت معتبر نہیں ہوگی، اسی طرح ہر قسط کی ادائیگی کے وقت  کیا جائے گا، چنانچہ فریقین  ادائیگی کے وقت  کسی اور کرنسی  میں قرض ادا کر سکتے ہیں اور اس کیلئے ادائیگی کے وقت  کی قیمت کو معتبر سمجھا جائے گا۔

اس معاملے میں حرام صورتیں تین ہیں:

پہلی صورت:
فریقین قرض کی  لین دین کے وقت اس بات پر متفق ہو جائیں کہ  کسی اور کرنسی  کے ذریعے ادائیگی ہو گی تو  یہ حرام ہے؛ کیونکہ اس وقت یہ معاملہ  قرض کی بجائے "حاضر کرنسی کو کسی دوسری  کرنسی سے ادھار کی بنیاد پر بدلنا ہے" ، اور اس میں ربا النسیئہ [ادھار کا سود] پایا جاتا ہے؛ کیونکہ جس وقت دو مختلف کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ کیا جائے تو اس کیلئے نقد و نقد ہونا ضروری ہے، جیسے کہ اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: سونا سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گندم کو گندم کے بدلے، جو کو جو کے بدلے ، کھجور کو کھجور کے بدلے، اور نمک کو نمک کے بدلے  فروخت کرو تو برابر  برابر اور نقد و نقد فروخت کرو،  اور اگر ان چیزوں کا تبادلہ کسی دوسری چیز کیساتھ کرو تو  جیسے مرضی فروخت کرو، بشرطیکہ نقد و نقد ہو) اس حدیث کو مسلم : (1578) نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے۔

موجودہ کرنسی  سونے اور چاندی کے قائم مقام ہے، اور کرنسی کے وہی احکامات ہیں جو سونے کے ہیں۔

دوسری صورت:
قرض کا معاملہ کرتے ہوئے  ادئیگی  کسی اور کرنسی میں کرنے پر  اتفاق نہ کیا جائے بلکہ اس قسم کی رائے کا اظہار ادائیگی کے وقت کیا جائے  مگر کرنسی کا ریٹ اسی دن کا لگائیں جس دن قرض لیا تھا تو یہ بھی حرام ہے، اس کی وجہ بھی وہی سابقہ ہے، اور اس صورت  کے حرام ہونے کیلئے فقہائے کرام نے مشہور حدیث کو دلیل بنایا ہے جسے  احمد :(6239) ابو داود :(3354) نسائی: (4582) ترمذی: (1242)ا ورابن ماجہ:(2262) نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں : میں اونٹوں  کی خرید و فروخت [ادھار] دیناروں پر کرتا ، اور پھر بعد میں درہم وصول کرتا، اسی طرح [ادھار] دراہم  پر فروخت کرتا  اور پھر بعد میں دینار وصول کرتا تھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کیا، تو فرمایا: (کوئی حرج نہیں ہے، لیکن  تم اسی دن  کے ریٹ  پر لو جس دن ادائیگی ہو رہی ہے، اور جس وقت تک تمہارا معاملہ صاف نہ ہو جائے جدا نہ ہو) [یعنی: سب کچھ وصول کر لو، ادھار باقی مت چھوڑو] اس حدیث کو  نووی ، احمد شاکر جیسے علمائے کرام  نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع اور صحیح  کہا ہے، جبکہ دیگر نے اسے ابن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول  کہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس کی نسبت نہیں مانی، ان علمائے کرام میں ابن حجر اور البانی وغیرہ ہیں۔
دیکھیں: "إرواء الغليل" (5/173)

یہاں اس صورت کے حرام ہونے کی ایک اور بھی وجہ ہے، کہ اگر آپ  ادائیگی کے دن کی قیمت سے زیادہ وصول کرینگے تو آپ ایسی چیز پر نفع کمائیں گے جو آپکی ضمانت میں داخل ہی نہیں ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی چیزوں پر نفع حاصل کرنے سے ممانعت فرمائی ، اس حدیث کو اصحاب السنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

تیسری صورت:
ادائیگی کے وقت کسی اور کرنسی میں ادائیگی پر رضا مندی ظاہر کریں ، لیکن ان کے جدا ہونے کے بعد بھی ان کی کچھ رقم باقی ہو، [یہ صورت بھی حرام ہے] مثال کے طور پر یوں سمجھیں کہ قرض 1000 ڈالر تھا، اور  ادائیگی کے وقت 5000 مصری پاونڈ دینے پر رضا مندی ظاہر کریں، تو قرض خواہ  4000  وصول کر لے اور مقروض پر ابھی  1000  باقی ہوں  تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ کرنسی  کے تبادلے کے وقت یہ لازمی ہے کہ نقد و نقد ہو، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔

خطابی رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کی سابقہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
"یہاں یہ شرط لگائی گئی ہے کہ جدا ہونے سے پہلے کھاتہ مکمل صاف کرلیں، کیونکہ درہموں کے بدلے میں دینار وصول کرنا صرافہ [کرنسی کا تبادلہ] کہلاتا ہے، اور صرافہ میں فریقین   اپنی اپنی چیز مجلس عقد میں قبضے میں لیں تو جائز ہے وگرنہ نہیں" انتہی
ماخوذ از: "عون المعبود"

لیکن اگر قرض کی ادائیگی اقساط کی صورت میں طے پائے ، تو ایسی حالت میں  ہر قسط کی ادائیگی کے وقت ریٹ کو ملحوظ رکھا جائے گا، ا س میں کوئی ممنوع کام نہیں ہے، کیونکہ  اس میں کرنسی کا تبادلہ کرتے وقت تاخیر  نہیں ہے۔

اس مسئلہ کے بارے میں اہل علم کی گفتگو  آپکے سامنے رکھتے ہیں:
دائمی فتوی کمیٹی سے پوچھا گیا :
"میں نے ایک شخص سے فرانسیسی  کرنسی میں  قرض لیا، کہ میں اسے فرانسیسی کرنسی میں ہی واپس کرونگا، لیکن جب  وہ شخص میرے پاس الجزائر میں آیا تو اس نے مجھے الجزائری کرنسی میں قرض  واپس کرنے کا کہا، اور ساتھ میں اضافی رقم کا مطالبہ بھی کردیا، اس بارے میں کیا حکم ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ کا الجزائر میں فرانسیسی کرنسی کی صورت  میں قرض ادا کرنا جائز ہے، اورفر انسیسی کرنسی  کے برابر اس دن کے ریٹ کے مطابق الجزائری کرنسی بھی دے سکتے ہو، لیکن جد ا ہونے سے پہلے ہر کوئی  اپنا پورا حق اپنے قبضے میں لے لے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (14/143)

اسی طرح  دائمی فتوی کمیٹی (14/144)سے یہ بھی پوچھا گیا:
"کسی مخصوص کرنسی میں قرض لیکر کئی مہینوں کے بعد  کسی اور کرنسی میں قرض واپس کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور اس دوران  دونوں کرنسیوں  میں ریٹ کا تناسب مختلف ہو سکتا ہے؟"

تو انہوں نے جواب دیا:
"اگر کسی شخص نے قرض لیا، اور اس پر کسی قسم کے نفع کی شرط بھی نہیں تھی، یا ادائیگی کے وقت کسی  اور کرنسی کی شکل میں موجودہ ریٹ کے مطابق قرض ادا کر دیا، اور اس میں قرض خواہ کیلئے نفع  کی کوئی شرط بھی نہیں تھی تو یہ معاملہ جائز ہوگا؛ کیونکہ یہ باہمی تعاون کی صورت ہے اور اس کے ذریعے سےمسلمانوں  کو اپنی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے۔

 اور اگر اس قرض  پر اسے نفع دینے کا پابند کیا جائے ، یا کسی اور کرنسی کے ذریعے قرض کی ادائیگی کی شرط پہلے ہی لگا دی جائے، یا قرض خواہ کو کوئی بھی فائدہ دینے  کی شرط موجود ہو تو قرض کا معاملہ حرام ہو جائے گا، کیونکہ یہ معاملہ کتاب و سنت ، اور اہل علم کے اجماع کی روشنی میں حرام  ہے" انتہی

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"قاہرہ میں مقیم میرے کچھ عزیز و اقارب  نے مجھ سے 2500 مصری پاؤنڈ قرضے کے طور پر مانگے، میں نے اسے 2000 ڈالر ارسال کیے، اور اسے اس کے بدلے میں 2490 مصری پاؤنڈ ملے، وہ اس وقت قرض واپس کرنا چاہتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت ہم نے قرض واپس  کرنے کے وقت کسی طریقہ کار پر اتفاق نہیں کیا تھا۔

جس کی وجہ سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ:  کیا میں اس سے 2490 مصری پاؤنڈ وصول کرونگا جو کہ اس وقت 1800  امریکی ڈالر کے برابر ہے [یعنی میری طرف سے ادا کی گئی رقم سے کم] یا مجھے 2000 ڈالر ملیں گے لیکن اس صورت میں مقروض کو  تقریبا 2800 مصری پاؤنڈ صرف کر کے مطلوبہ ڈالر ملیں گیں [یعنی جتنی رقم اسے موصول ہوئی تھی اس  سے 300 پاؤنڈ زیادہ]"

تو انہوں نے جواب دیا:
"آپ نے ڈالر قرضے میں دیے تھے لہذا آپ واپس بھی ڈالر ہی لیں گے، کیونکہ آپ نے ڈالر ہی یہاں سے ارسال  کیے، لیکن پھر بھی اگر آپ دونوں اس بات پر متفق ہو جائیں کہ وہ آپ کو مصری پاؤنڈ   دے ، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: ہم  بقیع یا نقیع  نامی جگہ میں اونٹوں  کی خرید و فروخت [ادھار] دیناروں پر کرتے تھے، اور پھر بعد میں ہم درہم وصول کرتے، اسی طرح [ادھار] دراہم  پر فروخت کرتے اور پھر بعد میں دینار وصول کرتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کوئی حرج نہیں ہے، لیکن  تم اسی دن  کے ریٹ  پر لو جس دن ادائیگی کرتے ہو، اور جس وقت تک تمہارا معاملہ صاف نہ ہو جائے جدا نہ ہو)

چنانچہ آپکا یہ معاملہ دو مختلف جنسوں کی اشیاء کو آپس میں فروخت کرنے سے مشابہت رکھتا ہے، یا اسے یوں سمجھیں کہ سونے کی چاندی سے بیع ہے، اس لئے اگر آپ کا اور مقروض شخص کا یہ اتفاق ہو جائے  کہ ان ڈالروں کے بدلے میں مصری پاؤند کے ذریعے قرض کی ادائیگی ہو ، اور اس کیلئے ادائیگی کے وقت کے  ریٹ کو معتبر سمجھا جائے ، اور آپ موجودہ ریٹ سے زیادہ وصول نہ کریں تو یہ جائز ہے، مثال کے طور پر: اگر 2000 ڈالر  اس وقت 2800 مصری پاؤنڈ کے برابر ہے تو آپکے لئے مقروض سے 3000 مصری پاؤنڈ لینا جائز نہیں ہے، اپ 2800 ہی لے سکتے  ہیں، اور اسی طرح آپ 2000 ڈالر کی صورت میں بھی قرض واپس لے سکتے ہیں، یعنی آپ موجودہ ریٹ پر لے سکتے ہیں  یا اس سے کم ریٹ  پر،  کیونکہ اگر آپ نے زیادہ لیا تو یہ ایسی چیز پر نفع ہونگا جو آپکی ضمانت میں  داخل ہی نہیں ہوئی، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر ضمانت کے نفع کمانے سے منع فرمایا ہے، اور اگر آپ موجودہ ریٹ سے کم وصول کرتے ہیں تو یہ آپ اپنے  حق  میں خود کمی کر رہے ہیں، اور اس میں  کوئی حرج نہیں ہے" انتہی

"فتاوى إسلامية" (2/414)

مزید کیلئے سوال نمبر: ( 23388 ) اور (12541) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب