"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
انسان کے لیے اسلامی طرزِ زندگی اپناتے ہوئے زندگی گزارنا ہی حقیقی معنوں میں افضل ترین زندگی ہے، لیکن بسا اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی طریقے سے زندگی گزارنا بہت مشکل ہے، اور بسا اوقات تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی طریقے سے زندگی گزارنے کی امید ہی نہیں ہے!!
اسلامی زندگی ہی حقیقی معنوں میں ایسی زندگی ہے جو انسان کے لیے بطور طرزِ زندگی اختیار کرنا ممکن ہے، لیکن اس کے لیے صبر اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز دین پر کار بند رہنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ اس کا معاملہ انگاروں کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے۔ اسلامی طرزِ زندگی اپنانے کے لیے اللہ تعالی کی توفیق کے بعد صبر بہترین معاون ہے کہ انسان اس راستے پر چلتے ہوئے صبر کرے تا آں کہ انسان اپنے رب سے ملے تو انسان غلو سے پاک ہو اور تغیر و تبدل میں ملوث نہ ہو۔ تاہم اپنے دل تک مایوسی کو رسائی نہ ملنے دیں، اور اللہ تعالی کے اس امت کے ساتھ کیے گئے نصرت و اقتدار کے وعدوں پر یقین اور بھر پور اعتماد رکھیں۔
الحمد للہ.
محترم بھائی اللہ تعالی آپ کو برکتوں سے نوازے، یہ بات آپ نے بالکل ٹھیک کہی ہے کہ انسان کے لیے اسلامی طرزِ زندگی اپناتے ہوئے زندگی گزارنا ہی حقیقی معنوں میں افضل ترین زندگی ہے؛ تو یہ بہت بڑی حقیقت ہے، ایسے بہت ہی کم انسان ہیں جنہیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے، چہ جائیکہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے والے لوگ کتنے ہوتے ہیں! حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر اس چیز کا ذکر فرمایا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُمْ بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: جو کوئی بھی مر د یا عورت عمل صالح ایمان کی حالت میں کرے تو ہم اسے نہایت خوشحال زندگی دیں گے، اور ہم انہیں ان کے کیے ہوئے اعمال میں سے بہترین کا اجر ضرور بہ ضرور دیں گے۔[النحل: 97]
اسی طرح اللہ تعالی نے یہ بھی بیان فرمایا ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالی پر ایمان اور ذکرِ الہی سے رو گردانی کرے تو اس نے اپنے آپ کو ترش زندگی اور بد بختی کے درپے کر دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى * قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنْتُ بَصِيرًا* قَالَ كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى* وَكَذَلِكَ نَجْزِي مَنْ أَسْرَفَ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِآيَاتِ رَبِّهِ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَشَدُّ وَأَبْقَى
ترجمہ: اور جو میری یاد سے منہ موڑے گا تو اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ [124] وہ کہے گا : ’’اے میرے پروردگار! تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا حالانکہ میں (دنیا میں) بینا تھا ؟‘‘ [125] اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جس طرح ہماری آیات تمہارے پاس آئیں تو تو نے انہیں بھلا دیا تھا، اسی طرح آج تو بھی بھلا دیا جائے گا۔ [126] اور اسی طرح ہم اس شخص کو جزا دیتے ہیں جو حد سے گزرے اور اپنے رب کی آیات پر ایمان نہ لائے اور یقیناً آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور زیادہ دیر رہنے والا ہے۔ [طہ: 124 – 127]
محترم بھائی! جب آپ کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہو گئی ، اور آپ کے دل میں یہ بات بیٹھ جانے کے بعد آپ اس پر مطمئن بھی ہو گئے، پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالی نے یہ زمین و آسمان ، سمندر و دریا، پہاڑ و میدان، غار اور صحرا سب کچھ صرف آپ ہی کے لیے پیدا کیے ہیں، حالانکہ آپ ان سب چیزوں کے مقابلے میں نہایت ہی کمزور ہیں اور ضعیف ہیں۔ اس چیز کا بیان اللہ تعالی نے یوں فرمایا ہے کہ: هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہی وہ سارا کچھ تمہارے لیے پیدا کیا ہے۔ [البقرۃ: 29] پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس دارِ فانی میں آپ کے وجود کی سب سے بڑی وجہ اور حکمت صرف اور صرف اپنے رب ، خالق اور عدم سے وجود دینے والی ذات کی عبادت ہے۔ اور یہ وہ ذات ہے جس نے ہر چیز کی تخلیق بڑے ہی احسن انداز میں کی ہے۔ اس کا بیان اللہ تعالی نے یوں فرمایا: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ترجمہ: میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ [الذاریات: 56]
یہ بھی آپ کو معلوم ہو گیا کہ اللہ تعالی نے موت و حیات بھی صرف اس لیے پیدا کیے ہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کا امتحان اپنی عبادت سے لے، اور انہیں پرکھے کہ انسان اللہ تعالی کی عبادت کیسے کرتے ہیں، اور عبادت کے سلسلے میں اللہ تعالی کے حقوق کس طرح بجا لاتے ہیں، اس سلسلے میں فرمانِ باری تعالی ہے: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ترجمہ: وہی ذات ہے جس نے موت اور حیات کو اس لیے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے، اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے۔ [الملک: 2] اس کے بعد اللہ تعالی نے اس دارِ فانی میں حسن کارکردگی کے حامل اپنے بندوں کی عزت افزائی کے لیے ان سے وعدے کیے کہ انہیں آخرت کے دارِ سرمدی میں ایسی جنت ملے گی جس کی صرف چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، اس جنت میں وہ کچھ ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا تک نہیں! نہ ہی کسی کان نے سنا ہے، اور نہ ہی کسی انسان کے دل میں ان کا خیال آیا ہے۔ پھر دوسری طرف اللہ تعالی کے حقوق میں تلفی ، کوتاہی اور بد عملی کے شکار شخص کو دھمکی اور وعدہ دیا کہ اسے دہکتی ہوئی آگ ملے گی، جہاں پر وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے گا، اس جہنم میں انواع و اقسام کے ایسے عذاب اور سزائیں ہوں گی کہ جنہیں دیکھنا اور مشاہدہ کرنا تو دور کی بات ہے محض سننے سے ہی بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے بھی جہنم سے سلامتی طلب کرتے ہیں۔ آمین
جب دلی اور یقینی طور پر اس بات کو سمجھ لیں ؛ تو یہ بات آپ کو معلوم ہو جانی چاہیے کہ اتنی بڑی نعمت، اور اس پُر خطر امتحان میں کامیابی کے لیے مشقت اور محنت سے بھرے راستے سے گزرنا ہی پڑے گا، اور اس کے لیے بھر پور صبر و تحمل کی ضرورت ہو گی، آپ کو تکلیفوں پر صبر کرنا پڑے گا۔ لیکن یہ سب مشقتیں اور تکلیفیں بہت ہی جلد ختم ہو جائیں گی اور اس کے بعد ابدی راحت اور سرمدی نعمت میسر ہو گی کہ جن کے مقابلے میں یہ تکلیفیں اور مشقتیں ایک لمحے کے دکھ ، درد کے برابر بھی نہیں ہوں گی؛ کیونکہ آخرت میں ملنے والی نعمتیں ابد تک رہیں گی جن کی لذتیں بھی سرمدی ہوں گی۔ ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اور آپ کو اپنا فضل اور جنت عطا فرمائے۔ آمین
پیارے بھائی یہ بھی آپ ذہن نشین رکھیں کہ جب کبھی دینداری اجنبیت کا شکار ہو اور راہِ حق کے راہی کم ہو جائیں جیسے کہ آج کل ہو رہا ہے تو انسان کے لیے حق پر ثابت قدم رہنا مشکل ہو جاتا ہے، انسان ہجوم کی مخالفت کرنے کو بہت ہی مشکل سمجھتا ہے، تو اسی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت الہی اور کرم نے تقاضا کیا کہ سچ اور حق پر ثابت قدم رہنے والے سچے مومنوں کے اجر و ثواب کو بڑھایا جائے کہ جنہوں نے اللہ کی رضا کو ہر کسی کی رضا مندی پر ترجیح دی، اور راہِ الہی میں ہر قیمتی اور زریں چیز تک قربان کر ڈالی، چنانچہ صحیح مسلم: (145) میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اسلام کا آغاز اجنبیت کے ساتھ ہوا، اور اسلام اسی حالت میں واپس آ جائے گا جیسے اس کا آغاز ہوا تھا، چنانچہ اجنبی لوگوں کے لیے خوش خبری ہے۔)
اسی طرح سیدنا ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (۔۔۔ تمہارے بعد ایسے دن آنے والے ہیں کہ اس وقت حق بات پر ڈٹ جانا ایسا مشکل کام ہو گا جتنا کہ انگارے کو مٹھی میں پکڑے رہنا ہے، اس زمانہ میں کتاب و سنت پر عمل کرنے والے کو پچاس عمل کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا۔) ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ: کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! یہ پچاس عمل صالح کرنے والے ہم میں سے مراد ہیں یا اس زمانہ کے لوگوں میں سے پچاس افراد مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ( تم میں سے پچاس افراد کے اجر کے برابر)۔ اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترغیب و ترہیب : (3172) میں صحیح قرار دیا ہے۔
تو مذکورہ بالا اور دیگر احادیث سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ آخری دور میں برے اور شریر لوگوں کی بھر مار ہو گی ، لوگوں میں خیر و بھلائی ، تقوی اور صلاحیت والے افراد بہت کم ہوں گے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ فتنے بہت زیادہ ہوں گے، گناہ اور نافرمانی کے اسباب و وسائل میسر ہوں گے، گناہ کی طرف مائل کرنے والے ذرائع اتنے زیادہ ہوں گے کہ دین پر چلنے والا شخص ایسے معاشرے میں اجنبی بن کر رہ جائے گا، بلکہ معاشرہ ہی کیا اپنے رشتہ داروں اور اہل خانہ میں بھی اجنبی بن جائے گا۔
اسی طرح انہی احادیث میں یہ بات بھی موجود ہے کہ دین پر چلنا کوئی آسان کام نہیں ہے، بلکہ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے ہاتھ میں انگارا اٹھا لیا جائے، اسلامی طرزِ زندگی اپنانے کے لیے اللہ تعالی کی توفیق کے بعد صبر بہترین معاون ہے کہ انسان اس راستے پر چلتے ہوئے صبر کرے تا آں کہ انسان اپنے رب سے ملے تو انسان غلو سے پاک ہو اور کسی بھی دینی تغیر و تبدل میں ملوث نہ ہو۔ لہذا اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے ملے اور اللہ تعالی اس پر راضی ہو ، ناراض نہ ہو تو اللہ تعالی اسے اس کا حقیقی اجر دینے کے بعد مزید اجر بڑھا چڑھا کر بھی عنایت فرمائے گا۔ اب اگر کسی شخص کو یہ باتیں سمجھ میں آ جائیں اور وہ ان پر کما حقہ یقین بھی رکھے تو اسے اس راہ میں جس قسم کی بھی تکلیف آئے تو اللہ تعالی کے بے پناہ فضل و کرم اور عنایتوں کے انتظار میں ان تکلیفوں پر صبر کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔
ہماری مذکورہ بالا بات اس صورت میں ہے جب آپ یہ سمجھتے ہوں کہ آپ کے لیے ذاتی طور پر اسلامی تعلیمات پر چلنا مشکل ہو گیا ہے، اور آپ کو خدشہ ہے کہ آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا اور آپ اسلامی تعلیمات پر ثابت قدمی نہیں دکھا سکیں گے۔
لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی طرزِ زندگی لوگوں میں عام کرنے کے لیے آپ کچھ نہیں کر پا رہے، اپنے ارد گرد لوگوں کو اسلام کی طرف واپس لانے میں آپ کو کامیابی نہیں مل رہی، جس انداز سے آپ کو نتائج ملنا چاہییں تھے وہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے بلکہ سامعین کی طرف سے رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، لوگ آپ کی مخالفت پر اتر آئے ہیں، وہ تو آپ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے ہیں تو توجہ سے سن لیں کہ: اس راستے پر آپ ایک قدم بھی آگے بڑھتے ہیں وہ قدم بھی آپ اللہ تعالی کی طرف سے مدد کے ذریعے اٹھا رہے ہیں، یہ قدم آپ کی طرف سے صدقہ بھی ہے، اور پھر آپ کا اچھی بات کرنا دوسرا صدقہ ہے، پھر آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کی کی ہوئی اچھی بات کب سامع کے دل پر اثر انداز ہو جائے، کیونکہ ممکن ہے کہ فوری اثر نہ ہو لیکن کچھ دیر اور لمحات یا عرصے کے بعد اس بات کے اثرات رونما ہو جائیں، لہذا آپ کی امید کا بندھن کسی دن بھی ٹوٹنا نہیں چاہیے، دیکھیں اللہ تعالی نے داعیانِ حق کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
ترجمہ: اور جب ان میں سے کچھ لوگوں نے انہیں کہا: تم ایسی قوم کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ تعالی نے تباہ کر دینا ہے یا شدید ترین عذاب دینا ہے؟! تو انہوں نے کہا: تمہارے رب کے ہاں عہدہ برآ ہونے کے لیے، اور [اس لیے بھی کہ] شاید وہ کبھی تقوی اختیار کر لیں۔[الاعراف: 164]
آپ کسی بھی صورت میں مایوسی کی طرف نہ جائیں؛ کیونکہ مایوسی تو کافروں کا وتیرہ ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: { لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ} ترجمہ: اللہ کی رحمت سے مایوسی صرف کافروں کا کام ہے۔[یوسف: 87]
اسی طرح ایک اور مقام پر مایوسی کو گمراہی قرار دیا اور فرمایا:
وَمَنْ يَقْنَطُ مِنْ رَحْمَةِ رَبِّهِ إِلَّا الضَّالُّونَ
ترجمہ: اپنے رب کی رحمت سے گمراہ لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں۔ [الحجر: 56]
آپ یہ بات بھی ذہن نشین کر لیں کہ آپ کا کوئی ایک اقدام بھی ضائع نہیں ہو گا، بشرطیکہ آپ راہِ راست پر گامزن چلتے چلے جائیں، لہذا جس پوائنٹ تک آپ کی زندگی ہے وہی آپ کی منزل ہے، اس بات کا تذکرہ اللہ تعالی نے یوں فرمایا:
وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
ترجمہ: اور جو شخص بھی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کی جانب ہجرت کے لیے نکلے اور پھر اسے موت آ جائے تو اس کا اجر اللہ تعالی کے ذمے ہو گیا، اور اللہ تعالی ہمیشہ سے بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔ [النساء: 100]
آپ کے چلے جانے پر آپ کے بعد آنے والوں پر ذمہ داری عائد ہو جائے گی اور وہ دعوت و تبلیغ کا علم اٹھا کر راستے کی تکمیل کی کوشش کریں گے، اور ایسے افراد اس امت میں بہت زیادہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالیٰ اس دین میں ہمیشہ( نئے) پودے لگاتا رہے گا اور ان سے اپنی اطاعت کے کام لیتا رہے گا) اس حدیث کو ابن ماجہ رحمہ اللہ (5) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
آپ اللہ تعالی کے اس امت کے ساتھ کیے ہوئے وعدۂ غلبہ و نصرت پر مکمل یقین رکھیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ترجمہ: اور زبور میں ہم نے نصیحت کے بعد یہ لکھ دیا تھا کہ زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے۔ [الانبیاء: 105] لہذا یہ دین وہاں تک پہنچے گا جہاں تک دن اور رات کا تصور ہے، اللہ تعالی کچی اینٹوں کے گھر یا بالوں کے بنے خیمے تک اس دین کو پہنچائے گا؛ اس راہ میں چاہے کسی کو عزت ملے یا ذلت ملے، اللہ تعالی اہل اسلام کو عزت عطا فرمائے گا اور کافروں کو ذلت عطا فرمائے گا۔ مسند احمدؒ، البانی ؒ نے اسے سلسلہ صحیحہ (32) میں صحیح قرار دیا ہے۔
مزید کے لیے آپ یہ خطاب بھی سن سکتے ہیں: مایوس مت ہو، نصرت ضرور ہوگی۔
تو محترم بھائی میں آپ کو تاکیدی نصیحت کروں گا کہ آپ دینی تعلیمات پر چلنے کی کوشش کریں، دین پر ثابت قدمی سے بالکل نہ ڈگمگائیں، چاہے فتنے کتنے ہی بڑھ جائیں، اور رکاوٹیں کتنی ہی کھڑی کی جائیں، دنیاوی چکا چوند اور حوصلہ شکنی کے سامنے ڈھیر مت ہوں، اور یقین رکھیں کہ آخر کار کامیابی متقی لوگوں کو ہی ملے گی۔
آپ دین پر ثابت قدم رہنے کے تمام تر وسائل کو بروئے کار لائیں، آپ کو اسی ویب سائٹ پر ایک پمفلٹ بھی ملے گا جس میں دین پر ثابت قدمی کے وسائل اور طریقے بیان کیے گئے ہیں، آپ اس کا بھی مطالعہ کریں اور اس میں جو کچھ موجود ہے اسے پڑھیں۔
گفتگو کے آخر میں میں چاہوں گا کہ آپ کو قرآن کریم کی آیات پیش کروں ، ان آیات کو اللہ تعالی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ موجود اہل ایمان کی قلبی ڈھارس باندھنے کے لیے نازل فرمایا تھا، ان آیت میں ان منفی خیالات کا علاج ہے جوان صحابہ کرام کے دلوں میں پیدا ہوتے تھے، اس لیے ان آیات کو مکمل غور فکر کرتے ہوئے پڑھیں، اور اگر آپ ان آیات کی تفسیر بھی پڑھیں تو اچھا ہو گا، اس کے لیے آپ تفسیر سعدی، یا تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ
ترجمہ: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ یونہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے جبکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ تاآنکہ رسول خود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! اللہ کی مدد بالکل قریب ہے۔ [البقرۃ: 214]
فرمانِ باری تعالی ہے: الم * أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ * وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ ترجمہ: الف لام میم، کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر انہوں نے ’’ہم ایمان لائے‘‘ کہہ دیا ہے تو انہیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی۔ [2] حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور یہ معلوم کرانا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟ [العنکبوت: 1 – 3]
فرمانِ باری تعالی ہے: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي الصَّالِحِينَ * وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِيَ فِي اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللَّهِ وَلَئِنْ جَاءَ نَصْرٌ مِنْ رَبِّكَ لَيَقُولُنَّ إِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ أَوَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِي صُدُورِ الْعَالَمِينَ
ترجمہ: اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے انہیں ہم صالح لوگوں میں ضرور شامل کریں گے [9] اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو (زبان سے تو) کہتا ہے ”ہم اللہ پر ایمان لائے ” مگر جب اسے اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے، تو لوگوں کی اس ایذا رسانی کو یوں سمجھتا ہے، جیسے اللہ کا عذاب ہو (اور کافروں سے جا ملتا ہے) اور اگر آپ کے پروردگار کی طرف سے نصرت آ جائے تو ضرور کہے گا کہ ہم (دل سے) تو تمہارے ہی ساتھ تھے۔ کیا اہل عالم کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے!؟ [العنکبوت: 9- 10]
فرمانِ باری تعالی ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ عَلَى حَرْفٍ فَإِنْ أَصَابَهُ خَيْرٌ اطْمَأَنَّ بِهِ وَإِنْ أَصَابَتْهُ فِتْنَةٌ انْقَلَبَ عَلَى وَجْهِهِ خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةَ ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ
ترجمہ: بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایک کنارے پر ہو کر اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ اگر کوئی نفع مل گیا تو مطمئن رہتے ہیں اور اگر کوئی آفت آ گئی تو اسی وقت منہ پھیر لیتے ہیں انہوں نے دونوں جہان کا نقصان اٹھا لیا واقعی یہ کھلا نقصان ہے۔ [الحج: 11]
فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ
ترجمہ: یقیناً جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ گئے تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں کہ تم خوف نہ کھاؤ نہ ہی غم کرو، اور اس جنت کی وجہ سے خوش ہو جاؤ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ [فصلت: 30]
فرمانِ باری تعالی ہے: إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ * أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ خَالِدِينَ فِيهَا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ترجمہ: یقیناً جن لوگوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ڈٹ گئے تو انہیں اپنے مستقبل پر خوف نہیں ہو گا ، نہ ہی ماضی پر غمگین ہوں گے، یہی لوگ جنت والے ہیں، وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے، یہ ان کے اعمال کا بدلہ ہے۔ [الاحقاف: 13 – 14]
اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جو ہمیں دین پر ثابت قدمی کی ترغیب دلاتی ہیں، اور وہ سب کچھ واضح کرتی ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لیے تیار کیا ہے۔ قرآن کریم میں اس مفہوم کو بیان کرنے والی اور ثابت کرنے والی بہت سی آیات ہیں، جو کہ بڑے ہی بلیغ انداز سے یہ بات بیان کرتی ہیں۔ تو پیارے بھائی میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ غور و فکر اور سمجھ کر قرآن کریم کی تلاوت کریں، اس طرح صبر کے لیے قرآن کریم بہترین معاون ہو گا، آپ اکتاہٹ یا مایوسی کا شکار بھی نہیں ہوں گے، یا منزل کو بھی بہت زیادہ دور نہیں سمجھیں گے؛ کیونکہ دنیا کی زندگی تو بڑی تیزی سے ختم ہو جاتی ہے، پھر انسان اپنے رب سے جا کر ملتا ہے، اور وہاں اسے وہ سب کچھ نظر آتا ہے جو اس نے کیا ، اگر اچھے اعمال کیے تھے تو اچھا بدلہ ملے گا، اور اگر برے عمل کیے تھے تو پھر بدلہ بھی برا ملے گا، اسی حوالے سے فرمانِ باری تعالی ہے: يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُ أَمَدًا بَعِيدًا وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ ترجمہ: اس دن ہر جان نے جو بھی اچھا عمل کیا ہو گا اسے اپنے سامنے حاضر کیا گیا دیکھ لے گی، جبکہ کیے ہوئے برے اعمال کے متعلق تمنا رکھے گی کہ اس کے اور برے اعمال کے درمیان دور کا فاصلہ ہو۔ اور اللہ تعالی آپ کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے، اور اللہ تعالی اپنے بندوں پر بہت زیادہ نرمی کرنے والا ہے۔ [آل عمران: 30]
میں اللہ تعالی سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی آپ کے سینے کو خیر کے لیے کھول دے اور آپ کو اللہ تعالی سے ملاقات تک ثابت قدم رکھے، آپ کو ہمہ قسم کے شر اور برائی سے محفوظ رکھے ، یقیناً اللہ تعالی دعائیں سننے والا اور قریب ہے۔ اللہ تعالی کی ذات اعلی اور زیادہ علم رکھنے والی ہے۔
اللہ تعالی اپنے بندے اور نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر رحمت و سلامتی فرمائے، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آل اور صحابہ کرام پر بھی۔
واللہ اعلم