"براہ کرم ویب سائٹ کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لئے دل کھول کر تعاون کریں۔ "
ہمارے ہاں ايك مولانا صاحب كہتے ہيں كہ: يوم عرفہ كا روزہ سنت نہيں، اور اس دون روزہ ركھنا جائز نہيں ہے، آپ سے گزارش ہے كہ جناب والا آپ اس سوال كا جواب ديں، كيونكہ يہ مولانا صاحب يوم عرفہ كا روزہ نہ ركھنے كے پملفٹ تحرير كر كے تقسيم كر رہے ہيں، جناب والا ا سكا جواب ضرور ديں.
الحمد للہ.
يوم عرفہ كا روزہ عير حاجى كے ليے سنت مؤكدہ ہے، ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں ثابت ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يوم عرفہ كے روزے كے متعلق دريافت كيا گيا تو آپ نے فرمايا:
" يہ روزہ پچھلے اورايك برس آئندہ كے گناہوں كا كفارہ ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 1162 ).
اور ايك روايت ميں ہے:
" ميرا خيال ہے كہ اللہ تعالى اس كے ساتھ پچھلے ايك برس اور آئندہ ايك برس كےگناہ معاف كرتا ہے "
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس مسئلہ كے حكم ميں امام شافعى اور اصحاب كہتے ہيں: جو ميدان عرفہ ميں نہيں اس كےليے يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مستحب ہے، ليكن جو حاجى عرفات ميں ہے اسكے متعلق امام شافعى اور اصحاب "المختصر " ميں كہتے ہيں: اس كے ليے ام الفضل رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث كى بنا پر روزہ نہ ركھنا مستحب ہے، اور ہمارے اصحاب كى ايك جماعت كہتى ہے اس كے ليے روزہ ركھنا مكروہ ہے، اس كى كراہت كى صراحت بيان كرنے والوں ميں دارمى، بندنيجى، اور محاملى شامل ہيں، انہوں نے المجموع ميں اور مصنف نے التنبيہ ميں اور دوسروں نے بھى صراحت كى ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع ( 6 / 428 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ ( يوم عرفہ ) عظيم شرف والا دن ہے، اور عيد ہے اور اس كى بہت بڑى فضيلت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ اس دن كا روزہ ركھنا دو برس كے گناہوں كا كفارہ ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 4 / 443 ).
اور ابن مفلح رحمہ اللہ حنبلى كتب كى كتاب " الفروع " ميں لكھتے ہيں:
" اور عشرہ ذوالحجہ كے روزے ركھنے مستحب ہيں، اور خاص كر نو ذوالحجہ ( يوم عرفہ ) كا روزہ تاكيدا ركھنا مستحب ہے اس پر اجماع ہے " انتہى.
ديكھيں: الفروع ( 3 / 108 ).
اور كاسانى رحمہ اللہ نے " بدائع الصنائع " حنفى كتاب ميں لكھا ہے:
" اور غير حاجى كے ليے يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مستحب ہے، كيونكہ اس دن روزہ ركھنے كے متعلق بہت سارى احاديث وارد ہيں، اور اس ليے بھى كہ عشرہ ذوالحجہ كو دوسرے ايام پر وہ فضيلت حاصل ہے جو كسى اور كو نہيں، اور اسى طرح حاجى كے حق ميں بھى روزہ ركھنا مستحب ہے، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر روزہ اس كے ليے وقوف عرفہ اور دعا و عبادت كرنے ميں كمزورى كا باعث نہ بنے، كيونكہ اس طرح اللہ كا قرب حاصل كرنے والى يہ دونوں عظيم عبادات كو جمع كيا جا سكتا ہے، اور اگر يہ اس كے ليے كمزورى كا باعث بنے تو پھر مكروہ ہے، كيونكہ اس دن كے روزے كى فضيلت تو كسى اور برس بھى حاصل كى جا سكتى ہے، اور عادتا يہ حاصل بھى ہو جاتى ہے، ليكن عام لوگوں كے ليے وقوف عرفہ تو زندگى ميں ايك بار ہى حاصل ہوتا ہے، تو اسے كا حصول اولى اور افضل ہے ".
ديكھيں: البدائع الصنائع ( 2 / 76 ).
اور فقہ مالكى كى كتاب " شرح مختصر الخليل " ميں درج ہے:
" اور اگر حج نہ كرے تو يوم عرفہ اور عشرہ ذوالحجہ كے روزے ركھنا.
شرح: اس سے مصنف كى مراد يہ ہے كہ غير حاجى كے ليے يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مستحب ہے، اور حاجى كے ليے روزہ نہ ركھنا مستحب ہے تا كہ وہ وقوف عرفہ ميں دعاء وغيرہ عبادات كے ليے تقويت حاصل كر سكے، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے خود بھى حج ميں روزہ نہيں ركھا تھا " انتہى.
ديكھيں: شرح مختصر الخليل للخرشى ( 6 / 488 ).
اور حاشيۃ الدسوقى ميں لكھا ہے:
" پھر ا سكا يہ قول كہ: اور يوم عرفہ كا روزہ مندوب ہے .... الخ.
اس سے مراد مندوب ہونے كى تاكيد ہے، وگرنہ روزہ ركھنا تو مطلقا مندوب ہے ".
ديكھيں: حاشيۃ الدسوقى ( 5 / 80 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
" حاجى اور حاجى كے علاوہ دوسرے افراد كے ليے يوم عرفہ كا روزہ ركھنے كا حكم كيا ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" غير حاجى يعنى عام شخص كے يوم عرفہ كا روزہ ركھنا سنت مؤكدہ ہے، يوم عرفہ كا روزہ ركھنے كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ سے دريافت كيا گيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان تھا:
" مجھے اللہ سے اميد ہے كہ اللہ تعالى اس سے ايك برس قبل اور ايك برس بعد كے گناہ معاف كر دےگا "
اور ايك روايت ميں ہے:
" يہ پچھلے ايك برس آئندہ ايك برس كا كفارہ ہے "
ليكن حاجى كے ليے يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مسنون نہيں، كيونكہ حجۃ الوداع ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يوم عرفہ كا روزہ نہيں ركھا تھا، صحيح بخارى ميں ميمونہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ لوگوں كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے متعلق يوم عرفہ كے روزے كا شك تھا تو ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دودھ بھيجا تو آپ نے دوران وقوف ہى سب لوگوں كے سامنے اسے نوش فرما ليا " انتہى.
ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين جلد ( 20 ) سوال نمبر ( 404 ).
اس ليے حاجى كے حق ميں يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مستحب نہيں، بلكہ مكروہ ہے، تو اگر متكلم كى يہ مراد ہے تو پھر اس نے بات صحيح كى ہے، ليكن اگر اس كى مراد غير حاجى كے ليے بھى يوم عرفہ كا روزہ ركھنا مشروع نہيں، تو يہ غلط ہے، اور صحيح احاديث كے مخالف ہے، جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
واللہ اعلم .