جمعرات 6 جمادی اولی 1446 - 7 نومبر 2024
اردو

میاں بیوی کے درمیان صلح کے لئے نماز

سوال

میاں بیوی کے درمیان صلح کی نماز کس حد تک صحیح ہے؟ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ دو رکعت پڑھیں اور ہر رکعت میں سورت فاتحہ کے بعد 7 بار یہ آیت پڑھیں:  عسى الله أن يجعل بينكم وبين الذين عاديتم منهم مودة والله قدير والله غفور رحيم   پھر نماز سے فراغت کے بعد یہ دعا پڑھیں: (اللهم ألن قلب فلان ابن فلانة ـ اس کی جگہ خاوند کا نام لےـ على فلانه بنت فلانة ـ اس کی جگہ بیوی کا نام لےـ كما ألنت الحديد لداوود )

جواب کا متن

الحمد للہ.

شریعت اسلامیہ میں ایسی کوئی نماز نہیں ہے جسے میاں بیوی کے درمیان صلح کی نماز کہا جائے، نہ ہی ذکر کردہ دعا ثابت ہے، کسی بھی شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ اپنی مرضی سے عبادت گھڑ دے، یا شریعت کی جانب ایسی چیز منسوب کرے جو شریعت میں ہے ہی نہیں۔

اس لیے خاص میاں بیوی کے درمیان صلح کی غرض سے کوئی نماز شریعت میں نہیں ہے، مذکورہ اہداف پانے کے لئے ذکر کردہ کیفیت کے ساتھ نماز ادا کرنا مردود اور بدعت ہے۔

تاہم اگر مذکورہ دعا یا اسی جیسی کوئی دعا جس سے مقصود پورا ہو جائے مثلاً کوئی عورت [عربی کے یہ الفاظ] کہے:  اَللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيَّ زَوْجِيْ، وَحَبِّبْنِيْ إِلَيْهِ  یا اسی جیسے کچھ اور الفاظ عام نماز کے دوران کہے چاہے فرض نماز ہو یا نفل تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اسی طرح اگر عورت نماز کے علاوہ بھی یہ دعا کرے کہ اللہ تعالی میرے خاوند کو میرے لیے اچھا بنا دے، یا اسی طرح کے الفاظ خارج از نماز استعمال کرے ، یا مرد دعا کرے کہ اللہ تعالی میری بیوی کو میرے لیے اچھا بنا دے، اور اس کے لئے قرآن کریم کی آیات یا مخصوص قسم کی نماز کو متعین بھی نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے یہ شرعی طور پر جائز ہے۔

در حقیقت دعا مطلوب و مقصود حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، دعا کے ذریعے انسان ہمہ قسم کے خطرات سے تحفظ پا لیتا ہے، لیکن اس کے لئے کوئی مخصوص طریقہ اور نماز نہ گھڑے۔

دوم:

شریعت میں دو ناراض افراد کی صلح کروانے کی بہت اہمیت ہے، شریعت نے اس عمل پر بہت بڑا جر و ثواب بھی مرتب کیا ہے، اور بالکل اسی طرح دو لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کی بھی شدید مذمت شریعت میں آئی ہے ؛ جیسے کہ ابو دردارء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں نماز، روزہ اور صدقے سے بھی افضل ترین درجے والا عمل نہ بتلاؤں ؟) تو صحابہ کرام نے کہا: کیوں نہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (دو ناراض افراد میں صلح کروانا، جبکہ دو افراد میں لڑائی ڈلوانا مونڈ دیتا ہے) ترمذی: (2509) امام ترمذی کہتے ہیں کہ: یہ حدیث صحیح ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: (مونڈ دینے سے مراد یہ نہیں کہ سر کے بال مونڈ دیتا ہے بلکہ یہ دین کو مونڈ دیتا ہے) ختم شد
شریعت نے گھرانے کو خوشحال بنانے کے لئے متعدد وسائل رکھے ہیں، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

  1. بہترین رفیقہ حیات کا انتخاب کریں۔
  2. گھر کو اللہ کے ذکر سے آباد رکھیں۔
  3. گھر میں شریعت کا نفاذ یقینی بنائیں۔
  4. گھر والوں کی ایمانی تربیت کرتے رہیں۔
  5. تسلسل کے ساتھ گھر میں سورت بقرہ کی تلاوت کریں، تا کہ گھر سے شیطان بھاگ جائے۔
  6. گھر میں ایسے لوگوں کو مت داخل ہونے دیں جن کی دینی حالت انتہائی پتلی ہو۔
  7. گھر کے رازوں کو افشا ہونے سے بچائیں۔

اس کے علاوہ مزید وسائل آپ کو شیخ محمد صالح المنجد کی کتاب: " أربعون نصيحة لإصلاح البيوت " میں تفصیل کے ساتھ مل جائیں گے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب