جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

كسى دوسرے ملك ميں بسنے والى نصرانى عورت سے شادى كرنا

104531

تاریخ اشاعت : 28-09-2010

مشاہدات : 6877

سوال

ميں جزائرى ہوں اور الجزائر ميں ہى رہتا ہوں ايك فلپائنى عورت سے تعارف ہو جو كيتھولك عيسائى ہے اور متحدہ عرب امارات ميں رہتى ہے، ميں اس سے شادى كرنا چاہتا ہوں اور وہ بھى مجھ سے شادى كرنا چاہتى ہے، اس نے مجھے متحدہ عرب امارات آ كر شادى كرنے كا كہا ہے، تو كيا ميرے ليے يہ شادى جائز ہے ؟
شادى كے بعد ميں اسے اسلام كى دعوت كيسے دوں، مجھے علم ہے كہ وہ شرط ركھےگى كہ ملازمت كرتى رہے كيونكہ عرب امارات ميں وہ كام كے ويزہ پر آئى ہوئى ہے، ميں يہ دريافت كرنا چاہتا ہوں وہ مجھے السلام عليكم كہتى ہے اور ميں بھى اسے و عليكم السلام كہتا ہوں، آپ مجھے ايسى كتابيں يا انگلش ميں ايسى ويب سائٹس بتائيں تا كہ ميں اسے اسلام كى تعليم دے سكوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دين اسلام كسى نصرانى عورت سے شادى كرنے ميں كوئى مانع نہيں، صرف شرط يہ ہے كہ وہ عفت و عصمت والى ہو كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:

كل پاكيزہ چيزيں آج تمہارے ليے حلال كى گئيں اور اہل كتاب كا ذبيحہ تمہارے ليے حلال ہے، اور تمہار ذبيحہ ان كے ليے حلال ہے، اور پاكدامن مسلمان عورتيں اور جو لوگ تم سے پہلے كتاب ديئے گئے ہيں ان كى پاكدامن عورتيں بھى حلال ہيں، جب تكہ تم ان كے مہر ادا كرو، اس طرح كہ تم ان سے باقاعدہ نكاح كرو يہ نہيں كہ علانہ زنا كرو يا پوشيدہ بدكارى كرو، منكرين ايمان كے اعمال ضائع اور اكارت ہيں، اور آخرت ميں وہ ہارنے والوں ميں سے ہيں المآئدۃ ( 5 ).

يہاں محصنات: سے مراد آزاد اور عفت و عصمت والى عورتيں ہيں.

اس كى مزيد تفصيل كے ليے سوال نمبر ( 2527 ) اور ( 26885 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ليكن اگر عورت عفت و عصمت كى مالك نہ ہو اور اس كے بوائے فرينڈ اور دوست ہوں جن كے ساتھ تعلقات ركھتى ہو تو دين اسلام ايسى عورت سے شادى كرنے سے منع كرتا ہے چاہے وہ اہل كتاب سے تعلق ركھتى ہو يا مسلمان ہو.

اسى طرح دين اسلام ميں يہ بھى ممنوع ہے كہ اس كى گرل فرينڈ ہو يہ اس ليے ہے كہ ازدواجى زندگى تباہ ہونے سے بچ جائے اور نسب كو اختلاط اور ضائع ہونے سے محفوظ ركھا جائے اور تہمت و گمان اور اختلافات كے اسباب سے اجتناب ہو.

جو شخص كتابى عورت سے شادى كرے اس پر واجب ہے كہ وہ ہميشہ اور مستقل طور پر اسلام كى دعوت دے يہ اس پر بيوى كا حق ہے اور اس پر واجب ہے، اور يہ دوسروں كو دعوت اسلام دينے سے بہتر ہے كہ اپنى بيوى كو دعوت دى جائے كيونكہ بيوى كا خاوند پر بہت زيادہ حق ہے چاہے وہ اہل كتاب سے ہى تعلق ركھتى ہو.

اور ان اہم حقوق ميں اسے اطاعت و فرمانبردارى كى دعوت دينا بھى شامل ہے، اور اصل اطاعت تو يہى ہے كہ اللہ پر ايمان لايا جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم سب سے بہترين امت ہو جو لوگوں كے ليے نكالى گئى ہے تم نيكى كا حكم ديتے اور برائى سے منع كرتے ہو اور اللہ پر ايمان ركھتے ہو، اگر اہل كتاب ايمان لے آئيں تو يہ ان كے ليے بہتر ہے ان ميں كچھ مومن بھى ہيں اور ان ميں اكثر فاسق ہيں آل عمران ( 110 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تيرى وجہ سے اللہ تعالى كسى ايك شخص كو ہدايت دے دے تو يہ تيرے ليے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3009 ).

دعوت الى اللہ كا باب بڑا وسيع ہے، اس ليے آپ اسے اور دوسروں كافروں كو دعوت دين كى سعى اور كوشش كريں، اس سلسلہ ميں آپ مساجد اور اسلامك سينٹر سے راہنمائى لے سكتے ہيں جہاں آپ رہتے ہيں وہاں معتبر اور ثقہ اسلامك سينٹر سے رابطہ كريں.

اور ان سے صحيح اور مفيد قسم كى كتابيں اور كيسٹ وغيرہ حاصل كريں جن ميں حكمت اور بہتر طريقہ سے دعوت الى اللہ ہو، اللہ سب كو ايسے كام كرنے كى توفيق نصيب كرے جن سے وہ راضى ہوتا اور پسند كرتا ہے.

ذيل ميں ہم دو انگلش ويب سائٹس كا ايڈريس درج كرتے ہيں آپ اس سے اسلام كے متعلق زيادہ معلومات حاصل كر سكتے ہيں:

http://www.islamworld.net

http://www.islamtomorrow.com .

دوم:

جب غير مسلم شخص كسى مسلمان كو واضح سلام " السلام عليكم " كہے تو اس كے جواب ميں وعليكم السلام كہا جائيگا، ا سكا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 43154 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے، آپ ا سكا مطالعہ كريں.

اس حكم ميں كتابى اور غير كتابى سب برابر ہيں كيونكہ نصوص عام وارد ہيں.

سوم:

ہميں آپ كے سوال سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ يہ ہے كہ آپ نے اس عورت سے تعلقات بات چيت كے ذريعہ قائم كيے ہيں يہ معلوم ہونا چاہيے كہ اجنبى عورت كا اجنبى مرد كے ساتھ بات چيت كرنا شرعا ممنوع ہے اس سے فتنہ و فساد كا ڈر ہے، اس ليے آپ اس سے شادى كا عزم كريں اور اس كى كوشش كريں يا پھر اس سے تعلقات منقطع كر ديں.

مزيد فائدہ كے ليے سوال نمبر ( 45645 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اللہ تعالى سےہمارى دعا ہے كہ آپ كے خير و بھلائى ميں آسانى پيدا فرمائے چاہے وہ جہاں بھى ہو.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب