اول:
جب زیور نصاب کو پہنچ جائے، یعنی پچاسی (85) گرام ہو جائے، اور اس پر پورا ایک سال گزر جائے، تو اس میں زکاۃ واجب ہو جاتی ہے۔ البتہ شرط یہ ہے کہ زکاۃ کے لیے مال پورے سال تک مالک کے پاس برقرار رہے۔ اگر سال کے دوران کبھی وہ مال نصاب سے کم ہو جائے تو نیا سال (حساب) شروع کیا جائے گا۔
مزید تفصیل سوال نمبر: (99381)میں ملاحظہ فرمائیں۔
دوم:
اگر نصاب میں کمی بہت معمولی ہو، جیسا کہ سوال میں ذکر ہوا ہے، بلکہ اس سے بھی کم ہو، تو کیا نیا سال شروع کرنا لازم ہو گا یا اتنی معمولی کمی کا اعتبار نہیں ہو گا؟
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سونے اور چاندی کی زکاۃ کے لیے شرط ہے کہ پورا ایک سال مکمل نصاب مالک کے پاس رہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کسی کے پاس سال کے بیشتر حصے میں بیس مثقال (یعنی مکمل نصاب) سونا رہا، پھر کچھ بھی کمی واقع ہو گئی — چاہے وہ کمی بہت تھوڑی ہی کیوں نہ ہو — اور ایک گھنٹے بعد ہی وہ نصاب دوبارہ مکمل ہو جائے، تب بھی پہلا سال منقطع ہو جائے گا، اور نئی زکاۃ اسی وقت واجب ہو گی جب دوبارہ مکمل سال نصاب کے ساتھ گزرے۔‘‘ ختم شد
’’ المجموع ‘‘ (5/491)
امام نووی ہی فرماتے ہیں:
’’اگر نصاب میں ایک دانہ یا اس کا کچھ حصہ بھی کم ہو جائے، تو بلا اختلاف زکاۃ واجب نہیں ہو گی۔۔۔ یہی ہمارا مذہب ہے اور جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر چاندی کے دو سو درہم میں ایک یا دو دانے کی کمی ہو — جو معمولی سمجھی جاتی ہے — تب بھی زکاۃ واجب ہو گی۔‘‘ ختم شد
’’ المجموع ‘‘(5/490)
فقہی کتاب ’’الکافی‘‘میں آیا ہے:
’’اگر نصاب میں کمی معمولی ہو، مثلاً ایک یا دو دانوں کے برابر، تو امام خرقی رحمہ اللہ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں زکاۃ واجب نہیں ہو گی، کیونکہ حدیث میں نصاب کی حد بندی آئی ہے۔ جبکہ بعض دیگر فقہائے حنابلہ کا کہنا ہے: ایسی معمولی کمی پر بھی زکاۃ واجب ہے، کیونکہ اسے یقینی طور پر ناپنا ممکن نہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی مال پر سال میں ایک یا دو گھنٹوں کی کمی ہو۔‘‘ ختم شد
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بظاہر امام خرقی کا قول ہی درست ہے، کیونکہ جب شریعت نے نصاب کی مقدار مقرر فرما دی ہے تو ہمیں اسی پر عمل کرنا چاہیے؛ کیونکہ ایک یا دو دانے بھی بعض اوقات مہنگے ہو سکتے ہیں، اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ نصاب کی مقدار قطعی ہے، تخمینی نہیں۔‘‘ ختم شد
ماخوذ از: (شرح الکافی)
خلاصہ:
اگر زیور نصاب سے کم ہو جائے، خواہ کمی معمولی ہی کیوں نہ ہو، تو زکاۃ کا سال ختم جاتا ہے اور دوبارہ نصاب پورا ہونے کے بعد نئے سرے سے سال کا شمار شروع کیا جائے گا۔
تاہم ایسے معاملے میں بہتر یہ ہے کہ زکاۃ ادا کر دی جائے تاکہ ان علمائے کرام کے اختلافی موقف سے بچا جا سکے جو معمولی کمی کو مؤثر نہیں مانتے۔
واللہ اعلم