سوموار 24 جمادی اولی 1446 - 25 نومبر 2024
اردو

صدقے کا اجر کب بڑھتا ہے؟ اور کیا صدقہ فوری کرنا چاہیے؟

سوال

صدقے کا مکمل اجر وہ بھی مزید اضافے کے ساتھ کیسے لیا جا سکتا ہے؟ مثلاً: اگر کوئی شخص 30 ڈالر صدقہ دینا چاہتا ہے، تو اس میں کیا افضل ہو گا؟ کہ مکمل رقم یک مشت دے دے یا پورا مہینہ روزانہ ایک ڈالر خرچ کرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صدقے کا اجر کچھ حالات میں معمول سے بڑھ جاتا ہے، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:

1-جب صدقہ خفیہ طور پر دیا جائے

جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اپنا سایہ اس دن دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کسی کا سایہ نہیں ہو گا۔۔۔ ایک وہ آدمی جس نے صدقہ کرتے ہوئے اتنے خفیہ انداز سے دیا کہ اس کا بایاں ہاتھ نہیں جانتا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے؟) بخاری: (1423)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (145557 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

2- جب کسی کو تعاون کی انتہائی شدید ضرورت ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین عمل یہ ہے کہ آپ کسی مسلمان کو خوش کر دیں، یا اس کی تکلیف دور کر دیں، یا اس کا قرض چکا دیں، یا اس کی بھوک مٹا دیں۔) اس حدیث کو طبرانی رحمہ اللہ نے معجم الکبیر (13646) روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (75406 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

3-مال کی فراوانی کے وقت اللہ کی راہ میں دے دے، یا اپنی موت اور قریب المرگ ہونے سے پہلے خرچ کر دے۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ایک آدمی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! کس صدقے کا اجر زیادہ ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آپ مکمل صحت کی حالت میں صدقہ اس وقت کریں جب آپ کو غربت کا خدشہ بھی ہو اور دولت جمع کرنے پر امیر بننے کی امید بھی ہو۔ صدقہ اس وقت تک لیٹ نہ کرو کہ جان ہنسلی تک پہنچ جائے اور پھر کہو: فلاں کو اتنا دے دو، فلاں کو اتنا دے دو) " بخاری: (1419)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (22885 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

4- صدقہ کسی غریب رشتہ دار پر کیا جائے، اور اگر کسی ایسے رشتہ دار پر صدقہ کیا جائے جس سے قطع تعلقی چل رہی تھی تو اس سے فضیلت مزید بڑھ جائے گی۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (افضل ترین صدقہ وہ ہے جو ایسے رشتہ دار پر کیا جائے جو دل میں دشمنی رکھے ہوئے ہو۔) مسند احمد: (23530) اسے البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (21810 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

5- خود کو ضرورت کے باوجود دوسروں پر صدقہ کرے، بشرطیکہ جن کی کفالت اس کے ذمے ہے ان کی ضروریات پوری کرے، البتہ اگر زیر کفالت افراد بھی راضی ہو تو ان کی ضروریات مؤخر کر کے صدقہ کر سکتا ہے۔

اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
 ترجمہ: اور جو ان مہاجرین سے پہلے دار الہجرت میں مقیم ہیں اور وہ ایمان میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جو لوگ ہجرت کرکے ان کے پاس آتے ہیں وہ ان سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دیا جاتا ہے اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی خلش محسوس نہیں کرتے اور مہاجرین کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اور خواہ خود محتاج ہی کیوں نہ ہوں، اور جو لوگ اپنے طبعی بخل و حرص سے بچا لیے گئے تو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔[الحشر: 9]

ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (انسان کے گناہ گار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت کو ضائع کر دے) اس حدیث کو ابو داود رحمہ اللہ (1692) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ اسی سے ملتی جلتی روایت صحیح مسلم: (996) میں بھی موجو دہے۔

علامہ بغوی رحمہ اللہ " شرح السنة " (9/342) میں کہتے ہیں:
"اس حدیث میں وضاحت ہے کہ صدقہ کرنے والے کو علم ہو کہ گھر والوں کے کھانے میں سے کوئی چیز نہیں بچے گی لیکن ثواب لینے کے لیے پھر بھی اس میں سے صدقہ کر دے تو یہ ثواب نہیں گناہ کا باعث ہو گا۔" ختم شد

6-صدقہ فضیلت والی جگہ یا وقت میں کیا جائے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سب سے زیادہ سخی تھے، اور رمضان میں آپ کی سخاوت بالکل جوبن پر ہوتی تھی۔) بخاری: (6)

7-جب صدقہ کرنے سے تمام مسلمانوں کو فائدہ ہو، مثلاً: فی سبیل اللہ خرچ کرنا۔

اس کی دلیل سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (افضل ترین صدقہ اللہ کی راہ میں سایہ دار خیمہ ، اور خادم کو فی سبیل اللہ دودھ پینے کے لیے جانور عطیہ کرنا، یا جانوروں کی فی سبیل اللہ جفتی کروانا۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (1627) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بھی پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (پانی پلانا) اس حدیث کو نسائی رحمہ اللہ (3664) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

اس حدیث کی شرح میں علامہ مناوی رحمہ اللہ " فيض القدير " (2/37) میں کہتے ہیں:
"علامہ طیبی کہتے ہیں: پانی پلانا اس لیے افضل ہے کہ اس کا فائدہ دینی اور دنیاوی ہر اعتبار سے سب کو ہوتا ہے۔" ختم شد

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (26106 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

8- کسی بھی چیز کا جوڑا اللہ کی راہ میں دینا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص اللہ کی راہ میں ایک چیز کا جوڑا خرچ کرے تو اسے جنت کے دروازوں سے آواز دی جائے گی : اللہ کے بندے! یہ بہت بڑی خیر ہے۔) بخاری: (1897)

9- جب صدقہ کرنے کے دن روزہ رکھا جائے، جنازے کی ادائیگی ہو اور مریض کی عیادت کا اہتمام کیا جائے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان چاروں چیزوں کے بارے میں فرمایا: (یہ چیزیں کسی ایک شخص میں جمع ہو جائیں تو وہ جنت میں ضرور جائے گا۔) مسلم: (1028)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (37708 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

10-متقی عالم اپنے ہاتھ سے صدقہ کرے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (دنیا چار قسم کے لوگوں کے لیے ہے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالی نے دولت اور علم دونوں سے نوازا ہے، یہ شخص ان دونوں کے بارے میں اللہ کا خوف دل میں رکھتا ہے، ان کے ذریعے صلہ رحمی بھی کرتا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس میں اللہ تعالی کا بھی حق ہے، تو یہ افضل ترین مقام ہے۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (2325) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (70446 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

11- جب صدقہ کی جانے والی چیز انسان کو بہت پسند ہو۔

جیسے کہ " الموسوعة الفقهية الكويتية " (26/336) میں ہے کہ:
"صدقے میں مستحب ہے کہ صدقے میں دیا جانے والا مال سب سے بہترین اور محبوب ترین مال ہو؛ اللہ تعالی کا فرمان ہے: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ ترجمہ: تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی پسندیدہ ترین چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔ اور تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے تو اللہ تعالی اسے جانتا ہے۔[آل عمران: 92]
امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سلف صالحین کو جب کوئی چیز اچھی لگتی تھی تو وہ اللہ کی راہ میں دے دیتے تھے۔" ختم شد

12- گھر والوں پر خرچ کرنا۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (ایک دینار تم فی سبیل اللہ خرچ کرو، اور ایک دینار گردن آزاد کرنے میں خرچ کرو، اور ایک دینار مسکین پر صدقہ کرو، اور ایک دینار اپنے گھر والوں پر خرچ کرو۔ ان تمام میں سے افضل وہ دینار ہے جو تم اپنے گھر والوں پر خرچ کرتے ہو۔) مسلم: (995)

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (3054 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔

13- شریعت میں کسی خاص وقت اور جگہ پر خرچ کرنے کا حکم دیا ہو تو اس جگہ اور وقت کا خیال کرتے ہوئے خرچ کرنا، مثلاً: عید الاضحی کے موقع پر قربانی کرنا، قربانی کی قیمت دینے سے افضل ہے۔

14- صدقہ ایسا ہو کہ جو موت کے بعد بھی جاری رہے، چاہے اس کی مقدار معمولی کیوں نہ ہو؛ کیونکہ جب کوئی چیز تسلسل کے ساتھ کافی دیر تک مفید رہے تو اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، ایسا علم جس سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں، یا دعا کرنے والی نیک اولاد۔) مسلم: (1631)

دوم:

افضل یہی ہے کہ انسان جتنا بھی صدقہ کرنا چاہے وہ یک بارگی دے دے؛ تا کہ اجر فوری مل جائے۔

فوری صدقہ کرنے سے دو پریشانیوں سے انسان بچ جائے گا:

پہلی: موت اس نیکی سے روک نہیں پائے گی۔
دوسری: صدقہ کرنے کا عزم ٹوٹ نہیں پائے گا۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
 ترجمہ: سبقت لے جانے والے ہی؛ سبقت لے جانے والے ہیں، یہی لوگ مقرب ہیں۔[الواقعہ: 10 -11]

یہی مفہوم ہمیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان سے ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (مجھے یہ اچھا نہیں لگتا کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اسے تین [صحیح بخاری کی روایت (6268)کے مطابق: دن یا راتیں]گزر جائیں اور اس میں سے میرے پاس ایک دینار بھی باقی ہو۔ صرف قرض چکانے کے لیے کچھ رکھ لوں، وگرنہ میں اس سارے سونے کو اللہ کے بندوں میں اس طرف، اُس طرف ، اس طرف خرچ کر دوں۔ آپ نے دائیں بائیں، اور پیچھے اشارہ کیا۔ پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم آگے چل دئیے اور فرمایا: زیادہ دولت والے ہی قیامت کے دن کم اجر والے ہوں گے، ما سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے اس طرف، اُس طرف ، اس طرف خرچ کر دیا۔ آپ نے دائیں بائیں، اور پیچھے اشارہ کیا۔ اور فرمایا: ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔) بخاری: (6444)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب